فضل حسین اعوان ـ 30 نومبر ، 2010
کوئی امیر ہے یا غریب‘ اس کی اپنی اولاد کی تعلیم کی طرف پوری توجہ ہوتی ہے۔ تربیت کو عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس میں والدین کا اتنا قصور بھی نہیں ہوتا۔ وہ تعلیم کو ہی تربیت سمجھ لیتے ہیں۔ صحیح خطوط پر تربیت نہ ہونے کے باعث آگے چل کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو پیشہ ورانہ مہارت کے باوجود ساتھیوں کو ساتھ لے کر نہیں چل پاتے۔ انسانی اقدار، جذبات اور احساسات سے عدم واقفیت کے باعث ساتھیوں اور ماتحتوں کی محبت تعاون اور حمایت کے بجائے خاموش نفرت حصے میں آتی ہے۔ ادارے ٹیم ورک کے ذریعے چلتے ہیں۔ ٹیم ورک نہ ہو تو بہترین اور اعلیٰ پیشہ ور افراد پر مشتمل ادارے نیم جان ہو جاتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا اثر اداروں پر ہی نہیں ذاتی کاروبار اور معاملات پر بھی ہوتا ہے… انسان دنیا میں ہر لحظہ اور ہر قدم پر سیکھتا ہے۔ سیکھنے اور سکھانے کا عمل عمر سے وابستہ نہیں۔
ایک بہترین تعلیم کے حامل نوجوان نے بڑے ادارے میں مینجریل پوسٹ کے لئے درخواست دی۔ ڈائریکٹر نے انٹرویو کے دوران نوجوان سے پوچھا ’’کیا تمہیں سکالرشپ ملا تھا؟‘‘ نوجوان نے نفی میں جواب دیا۔ ڈائریکٹر پوچھا ’’کیا والد نے تعلیم کے تمام اخراجات پورے کئے؟‘‘ نوجوان کے جواب پر کہ اس کا والد تو اس وقت فوت ہو گیا تھا جب اس کی عمر دو سال تھی، ڈائریکٹر نے سوچا کہ یقیناً اس کی والدہ مالدار ہو گی۔ لیکن یہ بھی حقیقت نہیں تھی۔ نوجوان نے بتایا کہ اس کی والدہ لانڈری کا کام کرتی ہے۔ لوگوں کے کپڑے واش کرتی ہے۔ ڈائریکٹر نے نوجوان سے اپنے ہاتھ سامنے رکھنے کو کہا‘ جو دیکھنے میں نہایت نرم و نازک نظر آئے۔ ڈائریکٹر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’کیا تم نے کبھی ماں کی اس کے کام میں مدد کی؟… ’’کبھی نہیں، میری ماں نے مجھے ہر وقت تعلیم کی طرف توجہ دینے کی تلقین کی‘‘ نوجوان کا جواب تھا۔ ڈائریکٹر نے نوجوان کو اگلے دن آنے کو کہا اور درخواست کی کہ وہ اپنی والدہ کے ہاتھ دھلا کر آئے…
نوجوان گھر گیا‘ اپنی امی جی کے قریب بیٹھا‘ اس کے ہاتھ دھلانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ماں نے حیرانی اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہاتھ بیٹے کے سامنے کر دئیے، ان پر سلوٹیں، جھریاں اور خراشیں تھیں، کھردرے ہاتھ کئی جگہ سے زخمی تھے۔ نوجوان ہاتھ دھلا رہا تھا۔ اس کے آنسو یہ سوچ کر پانی کے ساتھ مل رہے تھے کہ ان ہاتھوں نے محنت کرکے اسے اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اس دن نوجوان نے اپنی امی جی کو کوئی کام نہیں کرنے دیا۔ سارے کپڑے خود دھوئے، کھانا پکایا‘ ماں بیٹے نے مل کے کھایا۔ دونوں رات گئے تک باتیں کرتے رہے۔ اگلے روز نوجوان ڈائریکٹر کے سامنے بیٹھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نوجوان نے والدہ کے ساتھ گزارے لمحات کی روداد سنائی تو ڈائریکٹر نے پوچھا ’’اس سب کے دوران تمہارے احساسات کیا ہیں؟ نوجوان کا جواب تھا مجھے محنت کی عظمت کا اندازہ ہوا آج میری کامیابی میری امی جی کی محنت کی بدولت ہے۔ اپنی ماں کے ساتھ کام کرکے اور اس کی مدد کرکے احساس ہوا کہ مشکل کسے کہتے ہیں، کسی چیز کا حصول کتنا کٹھن ہے۔ مجھے خاندانی اقدار اور باہمی تعلقات کی اہمیت کا اندازہ ہوا‘‘۔ ’’میں بھی یہی چاہتا تھا‘‘۔ ڈائریکٹر نے نوجوان کی طرف تقرری کا لیٹر بڑھاتے ہوئے کہا ’’میں نے ایک نوجوان کی تربیت کر دی، جس سے اس کے اندر دوسروں کی مدد کا جذبہ پیدا ہوا۔ جسے دوسروں کی مشکلات کا احساس ہو گا‘ اس کی زندگی کا مقصد محض دولت اکٹھی کرنا نہیں ہو گا۔
ایک بچہ جس کی ہر خواہش پوری کر دی جاتی ہے وہ ہر چیز پر اپنا استحقاق سمجھتا ہے صلاحیت موجود ہو۔ عملی زندگی میں آتا ہے تو چاہتا ہے کہ ہر کوئی اس کو سنے۔ اگر یہ کسی بڑے عہدے پر پہنچ جائے وہ ماتحت ساتھیوں کے معاملات اور مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا۔ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ صرف اس کی خدمت کیلئے بنے ہیں۔ ان پر برستا ہے۔ الزام تراشی کرتا ہے۔ سخت سست کہتا ہے۔ اس کے ایسے اقدامات سے وہ بھی ان کی خاموش نفرت کا نشانہ بنتا ہے۔ ماحول کشیدہ رہتا ہے، ہر کسی کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، جو سب سے زیادہ ادارے اور اس کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔
ہم محبت اور لاڈ پیار میں اولاد کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اولاد کو زندگی کی ہر آسائش دینے کے ساتھ ساتھ زندگی کا تجربہ بھی دیں۔ اسے پتہ ہونا چاہئے کہ باپ کیا کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے اور کچھ نہیں تو بچوں سے کھانے کے بعد ایک مرتبہ برتن ہی دھلا لیں۔ زندگی کی مشکلات کا احساس دلانا چاہئے۔ دوسروں کی مدد کیسے کی جاتی ہے۔ دوسروں کیلئے کیسے جیا جاتا ہے یہ سب آپ نے اولاد کو بتا دیا اور سکھا دیا تو سمجھئے تعلیم اور تربیت کا حق ادا کر دیا۔ ایک انسان کو
انسانیت سے شناسا کر دیا۔
No comments:
Post a Comment