جمعرات ، 09 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان
آسٹریلوی وزیراعظم میلکم فریزر امریکہ کے دورے پر گئے تو اپنے باورچی کو بھی ساتھ لے گئے۔ وزیراعظم کے اقدام پر آسٹریلوی میڈیا نے ایک طوفان برپا کر دیا۔ کہا گیا کہ یہ شاہانہ طور اطوار ہیں جو جمہوری معاشروں میں قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ میلکم نے باورچی ساتھ لے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چونکہ پر ہینری غذا کھاتے میں اس لئے باورچی کو ساتھ لے جانا پڑا۔ میڈیا اور آسٹریلوی لوگوں نے ان کی وضاحت کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ امریکہ میں بھی لوگ بیمار ہوتے ہیں۔ وہاں ہر قسم کی غذا دستیاب ہے چنانچہ میلکم فریزر اپنے صرف اس اقدام کے باعث 1983ء میں اگلا الیکشن ہار گئے۔ یہ ان کا چوتھا الیکشن تھا تین میں لگاتار جیتے تھے… یہ ان معاشروں میں سے ایک کی کہانی ہے جن کی جمہوریت کی نقالی ہم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں؟ اس کی وجہ یہ کہ ہم جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق اپنانے پر قائل نہیں‘ اسے اپنی خواہشات کے سانچے میں ڈھالنے پر مائل ہیں۔ پٹرول والی کار ڈیزل اور بجلی والی ٹرین بھاپ سے نہیں چلائی جا سکتی۔ ہم پاکستان میں ایسا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز جس اقتدار سے منہ پھیرتے تھے۔ ہمارے ہاں اس اقتدار میں بڑی کشش ہے۔ الیکشن میں قومی و صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کیلئے بڑی جدوجہد ہوتی ہے۔ بعض پارٹیوں کے ٹکٹ فیس کے نام پر بھاری ریٹ مقرر ہیں۔ ٹکٹ صرف ایک کو ملنا ہوتا ہے درخواستیں 25 آجاتی ہیں۔ ٹکٹ ہولڈر راضی باقی ناراض۔ ان میں سے آدھے آزاد امیدوار یا قدرے ماٹھی پارٹی کا ٹکٹ لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ الیکشن میں ہر امیدوار جیت کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہاتا ہے۔ جیت بھی صرف ایک کے مقدر میں ہوتی ہے۔ کروڑوں خرچ کرنے والا لاکھوں پر نہیں ٹکے گا اربوں کمائے گا۔ کوئی جیت کر مشیر لگے یا وزیر‘ پارلیمانی سیکرٹری یا کسی کمیٹی کا عہدیدار و ممبر‘ اگر لوٹ مار کرنا چاہے تو اکیلا نہیں کر سکتا۔ کئی کو ساتھ ملانا اور کئی کو کھلی چھٹی دینا ہوتی ہے۔ پھر اندازہ کیجئے قومی خزانے کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔ وہی جو آج ہے۔ کرپشن‘ بدعنوانی‘ بے ایمانی اور لوٹ مار کا نئے سے نیا سکینڈل سامنے آتا ہے‘ ثابت شدہ‘ لیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
الیکشن کے دوران ٹکٹوں کی طرح عہدے بھی بیچے جاتے ہیں۔ لوٹ مار کے ماہرین کو چن چن عہدے دئیے جاتے ہیں۔ جو جتنا بدنام اور سزا یافتہ وہ اتنا ہی محترم‘ جس کا نام ای سی ایل میں بھی شامل وہ سب سے مکرم…
قائدین کا کوئی اصول نہ شیڈول‘ اب تو پارٹی کے اندرونی الیکشن سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ حکومت کی اپوزیشن کو دبانے‘ اپوزیشن کی حکومت کو گرانے کی تیاری‘ کہیں نورا کشتی تو کہیں دھینگا مشتی‘ کل حکومت میں آکر کیا کرنا ہے اپوزیشن کو اس کی فکر نہیں۔ الیکشن میں ووٹروں کو کیا منہ دکھانا ہے اس کی حکومتی پارٹی کو پروا نہیں۔ اس لئے کہ ان کو ووٹر کی اوقات اور ڈیمانڈ کا پتہ ہے۔ اکثر پارٹیوں کے اندر بیان باز اور زبان دراز موجود ہیں۔ مستقبل شناس اور منصوبہ ساز نہ ہونے کے برابر۔ کسی پارٹی کے پاس تھنک ٹینکس نہیں۔ حکومت میں آنے کی باری ہے تیاری ہرگز نہیں الیکشن ہوں گے جو جیتے گا حکومت بنائے گا۔ وزارتیں اہلیت کے بجائے وفاداری اور قربت کے باعث تقسیم ہوں گی‘ تھنک ٹینکس کا تصور نہ شیڈوکیبنٹ کی روایت‘ ایم بی بی ایس ڈاکٹر وزیر پارلیمانی امور‘ وکیل وزیر زراعت‘ جرنیل وزیر‘ تعلیم‘ صنعت کار وزیر دفاع اور مریض کو وزیر صحت بنا دیا جاتا ہے…حکمران اور سیاست دان جو چاہیں کریں۔ میلکم فریزر تو ایک باورچی کو ساتھ لے گئے تو کہرام مچ گیا تھا۔ ہمارے ہاں تو پورا باورچی خانہ باورچیوں کے لاؤ لشکر کے ساتھ‘ لسی و جام بنانے اور پلانے والے‘ دل بہلانے والے‘ مالشیے پالشیے‘ دوست احباب ہفتوں کے دورے پر ساتھ جاتے ہیں اور پھر دورے بھی مسلسل‘ ’’ٹوچن‘‘ دورے۔ آج ملک میں گورنس کہاں ہے؟ ایک طوفان بدتمیزی ہے۔ امن ہے نہ سکون‘ مہنگائی بے روزگاری عروج پر‘ بجلی گیس نہ ہونے سے کاروبار ٹھپ‘ حکومت کو عوامی مسائل کا احساس نہ اپوزیشن کو عوامی جذبات کا پاس۔ لوگ حکومتی پالیسیوں کے باعث جاں بلب‘ عدلیہ کا احترام نہ اس کے فیصلوں کا اہتمام۔
کچھ لوگوں کو خوش فہمی ہے کہ عوام الیکشن میں احتساب کریں گے۔ بالکل ایسا نہیں ہو گا۔ صرف شہروں میں انیس بیس کے فرق کے ساتھ کوئی فرق پڑے تو پڑے۔ دیہات میں حالات اور معاملات جونہی رہیں گے۔ عوامی نمائندے بڑے سیانے ہیں اپنے ووٹرں کو تھانے کچہری‘ پولیس اور پٹواری کے معاملات میں مطمئن رکھتے ہیں۔ وہ ووٹ اس لئے نہیں دیتے کہ ان کا نمائندہ قانون سازی میں ممدو معاون ہو گا۔ وہ دیکھتے ہیں اس نے ہمارے کتنے کام کئے۔ آج سب سے بڑی ضرورت ووٹر کو باشعور بنانے کی ہے۔ یہ کام سیاستدان کر سکتے ہیں لیکن اپنے پاؤں پر کلہاڑی کون چلاتا ہے۔ یہ کام مقامی سطح پر تعلیم یافتہ لوگوں کو کرنا ہو گا۔ اگر ووٹر باشعور ہو جاتا ہے تو یقین کریں‘ پاکستان میں بھی میلکم فریزر والی تاریخ دہرائی جایا کرے گی اور بڑی تیزی سے جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق رائج بھی ہو جائے گی۔
No comments:
Post a Comment