جمعۃالمبارک ، 17 دسمبر ، 2010
حسینیت اور یزیدیت…معرکہ آج بھی جاری ہے
فضل حسین اعوان ـ
خیرو شر، نیکی بدی، حق و باطل اور حسینیت و یزیدیت کے درمیان معرکہ آرائی ازل سے جاری ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ سچ کو ہزار پردوں میں ملغوف اور ملبوس کرکے بھی چھپایا نہیں جاسکتا۔ جس طرح سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع نہیں ہوسکتا۔ بن بادل برسات نہیں ہوسکتی، دوپہر سے قبل شام نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح خیر پر شر غالب آسکتا ہے نہ بدی نیکی کو ڈھانپ سکتی ہے۔باطل حق کو زیرو زبر کرسکتا ہے نہ یزیدیت کی حسینیت کے مقابلے میں جیت ہوسکتی ہے۔فتح و شکست کا ہر کسی کے پاس اپنا پیمانہ، معیار اور سوچ ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات کسی عمل اور اقدام کے نتائج مدتوں بعد واضح ہوتے ہیں تاہم انسان جو دیکھتا ہے اس کے مطابق نتیجے کا تعین کرلیتا ہے۔ خدا کے ہاں دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔
یزید کی جدید سامانِ حرب سے لیس سپاہ نے مدینہ النبیؐ سے چلنے والے امام عالی مقامؑ کی قیادت میں معصوم بچوں اور خواتین پر مشتمل مختصر قافلے پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ایک طرف بے سرو سامانی کی حالت میں اہلیبیت دوسری طرف اہل ابلیس، ایک طرف حق، دوسری طرف باطل،ایک طرف حسینیت دوسری طرف تمام تر کروفر اور شیطانیت کے ساتھ یزیدیت، حسینیت پر ہر قسم کا ظلم و جبر روا، ہر طرف سے ناکہ بندی، رسد کے راستے مسدودجانوروں تک کو ملنے والے دریا کے پانی تک آل رسول کی رسائی مفقود اوپر سے قیامت کی گرمی بدن کو جھلسائے دے رہی تھی۔ گلے پیاس سے خشک، بچوں کی بھوک اور پیاس سے حالت دیکھ کر بڑے سے بڑے حوصلے اور جگرے والا بھی ڈگمگا جائے۔ لیکن یہ نبی کا خاندان تھا علی کا خانوادہ تھا۔ خاتون جنت کے جگر گوشے تھے۔ لشکر یزید کا ایک ہی مطالبہ’’ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلو‘‘ تمام مظالم، جبر اور مصائب کے باوجود حسین ابن علیؓ کے پائے استقلال میں سرمو لرزش نہ آئی۔ حق پر باطل کو حاوی نہ ہونے دیا۔ یزیدی جس مقصد کیلئے آئے تھے اس میں ناکام ٹھہرے حضرت امام حسین ؓ کو یزید کی بیعت پر قائل نہ کرسکے تو اس نبیؐ کے خاندان پر یلغار کردی جس کا کلمہ بھی پڑھتے تھے۔ امام کا سر تن سے جدا ، ساتھیوں کے جسم نیزوں سے چھلنی کئے۔ ایسا ظلم چشم فلک آج تک نہیں دیکھا تھا اس ظلم پر دریائوں کا پانی خشک ہوجاتا تو بجا تھا۔زمین پھٹ جاتی تو درست تھا آسمان ٹکڑے ہوجاتا تو ٹھیک تھا کیونکہ یہ صرف حسین ابن علی ؓ کا قتل ہی نہیں تھا بلکہ آل رسولؐ کی توہین بھی تھی۔اقتدارکے نشے میں ظلم کی انتہا، انسانیت کی ابتلا، حضرت امام حسینؓ اور ساتھیوں کی شہادت پر ابن زیاد اور اسکے ماتحت فوج نے جشن منایا۔ اس کے حواریوں نے شادیانے بجائے اسے اپنی فتح و نصرت قرار دیا۔کیا واقعی یہ یزیدیوں کی فتح تھی؟ ہرگز نہیں۔ یزیدی جس کو فتح و نصرت اور کامرانی قرار دے رہے تھے یہی دراصل یزیدیت کی موت، ذلت اور رسوائی تھی …؎
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے............. اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کربلا میں اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر حسین ابن علیؓ اور ساتھیوں نے دین مصطفویؐ کو زندہ کردیا خود بارگاہ نبوی میں سرخرو ہوگئے۔آج یومِ عاشور پر سوا ارب سے زائد اہلِ اسلام حضرت امام حسینؓ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ان کی لا زوال قربانی پر خراجِ عقیدت اور سلامِ محبت پیش کیا جارہا ہے۔آج کتنے لوگ ہیں جو یزید پر لعنت نہیں بھیجتے۔اسلامی دنیا کا کوئی خطہ قریہ اور گلی ایسی نہیں جہاں امام حسینؓ کے نام پر نام رکھنے والے موجود نہ ہوں۔یزید کے نام پر کسی نے اپنی اولاد کا نام رکھا؟ ایسا ہی پست مرتبہ و مقام اور ننگ و نام یزید کے حواریوں کے حصے میں آیا۔ وقتی مفادات و مقاصد کا حصول ان کو نفرت و رسوائی کی پستیوں میں لے گیا
۔آج ہمارے ہاں بھی وقتی مفادات کیلئے مصلحت اور منافقت سے کام لیا جاتا ہے۔ ارضِ پاک پر صہیونی اور صلیبی مقاصد کی برآری کیلئے گروی رکھ دی گئی ہے۔ اسلام دشمن قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر رب واحد کے نام لیوائوں کا خون بہایاجارہا ہے۔اس خونریزی کی ابتدا کرنیوالا آج دربدر ہے انتہا کرنیوالوں کا انجام بھی بخیرنہیں آج بھی حسینیت اور یزیدیت کے مابین معرکہ جاری ہے ، فتح و نصرت حسینیت کا مقصد ٹھہرے گی خدا کے ہاں دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں ، صہیونیوں اور صلیبیوں کا ساتھ دینا یزیدیت ہے ۔ساتھ دینے والے اپنا انجام سوچ لیں۔ ان کا شمار یزید، شمر، میر جعفر اور میر صادق کی صفوں میں ہوگا۔ نسلوں کو غدارابن غدار کے طعنے ملتے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment