منگل ، 28 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان
آدھا ملک گنوا کر بھی ہمارے نازو انداز بدلے نہ کبرو نخوت میں کوئی فرق آیا۔ گھر پھونک کر تماشا دیکھنے کی خصلت اور خو نہیں گئی۔ دلوں میں دوریاں پیدا کرنے‘ محبت کو نفرت میں بدلنے‘ اپنوں کو غیر بنانے اور دوستوں کو دشمن کی صف میں دھکیلنے کا فن کوئی ہم سے سیکھے۔ جو کچھ مشرقی پاکستان میں کرکے آدھے ملک سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ وہی کچھ بلوچستان میں دہرا رہے ہیں‘ ہر اقدام حکمت سے خالی اور ہر کام دانش سے عاری‘ چنگاری کو شعلہ اور شعلے کو الاؤ بنا دیا۔ اس پر نادم ہیں نہ شرمندہ بلکہ بڑی بے شرمی و ڈھٹائی سے اترا رہے ہیں۔
اچھائیوں کا ڈھیر لگا دیں۔ بھلائیوں کا انبار کھڑا کر دیں۔ نیکیوں کا پہاڑ بنا دیں۔ ایک معمولی لغزش اور بے احتیاطی سب کچھ تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ کروڑ سوا کروڑ کی آبادی کے پرامن شہر کا صرف ایک شرپسند کلاشنکوف کے ایک برسٹ سے سکون اور چین برباد کر سکتا ہے۔ دوچار مل جائیں تو قیامت برپا ہو جائے۔ بلوچستان اندرونی اور بیرونی بدخواہوں کی وجہ سے دہک رہا ہے۔ علیحدگی پسند خواہ مٹھی بھر ہیں‘ ایک بڑی آبادی کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ قصبوں اور دیہات کے تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ پڑھنے دیتے ہیں نہ سبز ہلالی پرچم لہرانے‘ ضرورت دشمن کی سازشوں اور ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کی ہے‘ بدقسمتی سے دانستہ یا نادانستہ دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس کی بہت بڑی مثال جمہوری وطن پارٹی کے صوبائی صدر اور اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین بگٹی کی بہیمانہ انداز میں گرفتاری ہے۔ اس پر خطرناک ہتھیاروں کی برآمدگی کا الزام مان بھی لیا جائے تو بھی اس کی تذلیل اور تضحیک کا کیا جواز ہے؟ میڈیا کو وہاں کیوں بلایا گیا؟ اور اخبارات کو جو تصویر جاری کی گئی جس میں ایک سکیورٹی اہلکار کا شاہ زین کی گردن پر ہاتھ ہے۔ اس کی اشاعت کا کیا مقصد؟ ایف سی کے آئی جی کو میڈیا سے گفتگو کی کیا ضرورت تھی؟
نوکر شاہی نے بلوچوں کے دل و دماغ میں بدگمانی کا بیج بویا جو آج نفرت اور دشمنی کا تناور درخت بنتا گیا۔ خان آف قلات نے قائداعظم کا ساتھ دیا۔ قائد کے وصال کے بعد خان آف قلات کو معزول کر دیا گیا معزولی کو بلوچوں کے ایک بڑے حلقے نے اپنی توہین سمجھا۔ پچاس کے عشرے کے آخر میں نو روز نگل بغاوت کرتے ہوئے پہاڑوں میں قلعہ بند ہو گئے۔ مئی 1959ء میں ان کو قرآن کے نام پر پہاڑوں سے اتارا گیا اور گرفتار کرکے قید کر دیا گیا۔ 1964ء میں وہ دوران حراست چل بسے تاہم ان کے بیٹوں اور ساتھیوں کو پھانسی لگا دی گئی۔ اس اقدام سے ایک طرف بلوچوں کا حکومت سے اعتماد اور اعتبار جاتا رہا دوسری طرف نفرت اور انتقام کا جذبہ بھی دوچند ہو گیا۔
یہ بلوچوں کی فطرت ہے کہ اپنے اوپر ہونے والا ستم بھولتے نہیں۔ انتقام اور بدلہ لینے کیلئے سازگار حالات کا صدیوں تک بھی انتظار کر لیتے ہیں‘ بلوچ معاف کرنے میں بھی دریا دل واقع ہوئے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ طمع اور لالچ ہے تو صرف اور صرف اپنی عزت احترام اور توقیر کا… آج بلوچستان میں سب سے زیادہ مظالم پنجابیوں پر ہو رہے ہیں۔ اساتذہ ڈاکٹروں‘ انجینئروں اور دیگر پیشہ ور اور ہنر مند افراد کو قتل کیا جا رہا ہے۔ غلط فہمی یہ کہ پنجاب آمرانہ ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ مشرف تو پنجابی نہیں تھے۔ ان کا ظلم و جبر بھی پنجاب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ بلوچوں کے دلوں سے غلط فہمیاں دور‘ نفرت اور انتقام کے دہکتے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچوں کی سیاست سرداری نظام کے گرد گھومتی ہے۔ معروضی حالات کو نظرانداز کرکے بلوچوں کا اعتماد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ عام قبائلی اپنے سردار کی پرستش کی حد تک تکریم کرتا ہے معاملات سوجھ بوجھ اور عقلمندی سے ہی پٹڑی پر چڑھ سکتے ہیں۔ ہر معاملے کو خوش اسلوبی سے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے سازگار حالات کی ضرورت ہے۔ آج معاملات کو سازگار بنانے کی زیادہ ذمہ داری حکومت کی ہے۔ وطن عزیز مزید نفرتوں اور انتقامی کارروائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شاہ زین کو حکومتی رٹ کی بحالی اور قانون پر عملدرآمد کے نام پر گرفتار کرکے بدگمانیوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بلوچوں میں نفرت اور انتقام کے جذبات کو ہوا دی گئی ہے۔ اس زیادتی کو سدھارا جا سکتا ہے۔ آسانی سے‘ بڑی آسانی سے‘ بلوچوں پر اپنی برتری جتانے کے بجائے ان کی عزت کا خیال رکھا جائے‘ ان کو احترام دیا جائے۔ زرداری صاحب خود بلوچ ہیں‘ بلوچ جو مانگتے ہیں ان کو دیدیں۔ یقین کیجئے وہ خود مختاری نہیں صرف خودداری کے خواہشمند اور خواہستگار ہیں۔ اس پر کوئی خرچہ نہیں آتا۔
No comments:
Post a Comment