اتوار ، 19 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
کسی بھی قوم کی تاریخ کے تابناک، غضبناک یا شرمناک ہونے کا تعین ماضی کے واقعات کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی تاریخ بلندی و پستی، زیر و بم، فخر و ندامت کا مجموعہ اور مرکب ہے۔ ہمارا ماضی سہانا ہے یا گھنائونا دونوں صورتوں میں یہ ہمارے حال اور مستقبل کا آئینہ دار ہونا چاہئے۔ قابلِ فخر ماضی کو گلے کا ہار اور سینے سے لگا کر شرمندگی پر مبنی واقعات اور سانحات کو نظرانداز اور فراموش کر کے عظیم الشان مستقبل کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ ماضی کے بعض سانحات خود بخود ذہن و قلب سے محو ہو سکتے ہیں تاہم بعض کو ہزار کوشش کے باوجود بھلایا جا سکتا ہے نہ ان سے پیچھا چھڑایا۔ ہماری تاریخ کا سب سے شرمناک سانحہ، المیہ مشرقی پاکستان ہے۔ یہ پاکستانیوں کے دلوں کے اندر ایک مسلسل سلگتی ہوئی آگ ہے۔ اس سانحہ کا دکھ، درد الم اور کرب کروٹ کروٹ اپنی یاد دلاتا رہتا ہے۔ اولاد کی موت کا صدمہ جس طرح والدین کی زندگی کی رعنائیاں، خوش ادائیاں، رنگین چلن اور بانکپن چھین لیتا ہے بالکل اسی طرح سقوطِ ڈھاکہ کے داغ نے محب وطن پاکستانیوں کو اداس اور غمگین کر دیا، نسلوں کو ہمیشہ کا غم دے دیا۔ پاکستان بنتے دیکھنے والوں نے پاکستان ٹوٹتا دیکھا تو ان پر کیا گزری ہو گی۔ اندرا گاندھی کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں پگھلے سیسے کی طرح گونجتے ہیں۔ ’’ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا‘‘۔ اندرا گاندھی کے بدبودار‘ زہر آلود الفاظ اپنی فتح پر ناز گھمنڈ اور اغماز شراب کے جام میں ڈوبی ہوئی پاکستانی قیادت کی فرائض سے چشم پوشی و روگردانی، غیرت و حمیت سے تہی دامانی مشرقی محاذ پر فوج کی رسوائی جنرل نیازی کے لاابالی پن اور اوچھی حرکتوں کے باعث جگ ہنسائی، یہ سب نظروں کے سامنے گھومتا ہے تو دماغ میں نفرت، حقارت اور انتقام کا طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ اندرا گاندھی نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ ہم اپنی ذلت کا بدلہ کب اور کیسے لیں گے؟ شاطر اور چالاک ہندو بنیے نے قیام کی ربع صدی مکمل ہونے سے بھی ایک سال قبل قائد و اقبال کے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ ہم 39 سال سے اس سانحہ کا سوگ منا رہے ہیں۔ ہندو نے نسل در نسل مسلمانوں سے نفرت اور ہزار سال کی غلامی کے انتقام کا جذبہ منتقل کیا۔ المیہ مشرقی پاکستان اور وادی کشمیر پر بھارت کے جارحانہ اور ظالمانہ قبضے کے باوجود، کیا اپنی نسلوں کو ہم بھارت کے ساتھ محبت و مروت، صلح جوئی، امن و آشتی کے ساتھ رہنے کا درس دیں؟ اس دشمن کے ساتھ اخوت و بھائی چارے کا سبق دیں جو 1971ء میں باقی بچنے والے پاکستان کو بھی نگل جانا چاہتا ہے۔ ہڑپ کر جانا چاہتا ہے تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے؟ اندرا گاندھی کی سازش و جارحیت، ہماری سیاسی و عسکری قیادت کی نااہلی و نالائقی کے باعث مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی شکل میں نمودار ہوا۔ پاکستان نے اسے باقاعدہ تسلیم کیا ہے اس کے باوجود بہت سے لوگ اسے بدستور مشرقی پاکستان کہتے ہیں۔ ان کے ایسا کہنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی لیکن ان کے اندر سانحہ کا کرب موجود ہے۔ اس کا ذکر آتا ہے تو دل کا درد اور روح کی تڑپ آنسو بن کر آنکھوں سے بہنے لگتی ہے۔
جناب عرفان صدیقی بڑے محترم و مکرم ہیں بڑے قلمکار اور جناب مجید نظامی کے تربیت یافتہ بھی ہیں۔ ان کی آواز اونچے ایوانوں میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ لوگ ان سے رہنمائی لیتے ہیں لیکن نجانے وہ کس رنگ اور ترنگ میں تھے کہ 16 دسمبر کو شائع ہونے والے کالم ’’قصہ ماضی اور لمحہ موجود‘‘ میں فرما دیا… ’’مشرقی پاکستان تو چھن گیا۔ زخم بھی بھر چکا ہے۔ لیکن کبھی کبھار پیچھے پلٹ کر دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں‘‘… عرفان صدیقی صاحب بولتے ہیں تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ لکھتے ہیں تو قلم خوشبوئیں بکھیرتا چلا جاتا ہے دشمن کے خلاف قلم سے نکلے ہوئے الفاظ انگارے اور شرارے بن جاتے ہیں۔ معذرت اور احترام کے ساتھ ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ازلی دشمن کا سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں دیا ہوا زخم بھر چکا ہے۔ ایسا ہوتا تو محمود علی ارض پاک پر جان نہ دیتے۔ ایم ایم عالم اپنے آبائی وطن جا چکے ہوتے۔ دشمن کے وار یا حادثے میں چہرہ جھلس جائے، شکل بگڑ جائے ناک کٹ جائے یا آنکھ نکل جائے تو آئینہ دیکھے بغیر بھی محرومی کا احساس زندہ رہتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان ہمارا شرمناک ماضی ہے اس کے تناظر میں ہی ہمیں اپنا مستقبل استوار کرنا ہے۔ اس ہزیمت کو عزیمت میں بدلنا ہے۔ اس ذلت کا بدلہ اور انتقام ہم پر فرض اور نئی نسلوں پر قرض رہے گا۔ گھائو بھر جائیں تو بھی زخموں کے نشان آمادہ انتقام کرتے ہیں یہ زخم تو ابھی تازہ ہیں۔ دکھ تازہ ہے گزرتے دنوں کے ساتھ اس میں کمی نہیں اضافہ ہوتا رہے گا اور ایک موقع پر جب ناقابل برداشت ہو جائے گا تو مداوے اور ازالے کی کوشش یقیناً ہو گی۔ ہندو بنیا اپنی غلامی کا بدلہ لینے کے لئے صدیوں انتظار اور پلاننگ کر سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے اور ہو سکتا ہے کہ ایسی پلاننگ کہیں نہ کہیں ہو رہی ہو۔ ہم اپنی تاریخ سے منہ موڑ سکتے ہیں نہ ماضی سے ناطہ توڑ سکتے ہیں۔ تاریخ کو فراموش کیا جا سکتا ہے نہ ماضی کو نظرانداز۔ ایسا ہوتا تو ہمارے میزائلوں کے نام غوری، غزنوی اور ابدالی نہ ہوتے۔ ہماری کتابوں میں اسلام کے ہیروز کا ذکر موجود اور گھروں میں ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، قائد اور اقبال کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ جو قومیں ماضی کو فراموش کر دیتی ہیں ان کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے۔ ہمیں ماضی کو فراموش نہیں کرنا اس سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستان کے عظیم تر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔
No comments:
Post a Comment