7-12-10
فضل حسین اعوان ـ
کرپشن سکینڈل سامنے آیا تو بھارتی وزیر مواصلات اے راجہ کو مستعفی ہونا پڑا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ بدستور ان دی لائن آف فائر ہیں۔ سپریم کورٹ نے منموہن سنگھ سے حلف نامہ داخل کرانے کو کہا تو انہوں نے استثنٰی کی بات کی نہ استحقاق کی۔ عدالتی حکم نامے پر سر تسلیم خم کر دیا۔ اے راجہ پر الزام ہے کہ انہوں نے موبائل فون کمپنیوں کو 120 لائسنس جاری کرتے ہوئے قومی خزانے کو 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ راجہ کے خلاف جامع تحقیقات کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ کانگریس نے مطالبہ مسترد کیا تو اپوزیشن نے 9 نومبر سے 3 دسمبر تک ایوان زیریں اور بالا کے اجلاس نہیں چلنے دئیے۔ بالآخر کانگریس حکومت نے وزیر مذکور کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ منموہن سنگھ کو اس لئے سپریم کورٹ نے حلف نامہ داخل کرانے کی ہدایت کی ہے کہ ایک اپوزیشن لیڈر سبرامنیم سوامی نے وزیراعظم کو ٹیلی کام شعبے میں کرپشن کے حوالے سے 11 ماہ میں 5 خط لکھتے ہوئے اے راجہ کے خلاف کارروائی کی اجازت طلب کی تھی۔ وزیراعظم کی طرف اجازت تو درکنار خطوط کا مناسب جواب بھی نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے خطوط پر وزیراعظم کی خاموشی کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اجازت نہ دینے کا فیصلہ تو کیا جا سکتا تھا لیکن اتنے سنگین کیس میں خاموشی اختیار کئے رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اے راجہ کا تعلق کانگریس سے نہیں اتحادی جماعت ڈی ایم کے سے ہے۔ بالکل ہمارے ہاں، ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی کی طرح۔ یہاں اتحادیوں کو ہر معاملے میں کھل کھیلنے کی اجازت ہے۔ شاید بھارت میں بھی ایسا ہی ہو۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔ یہاں ماحول یہ ہے کہ شام تک جو کمایا اس میں سے اپنا حصہ لو، ہمیں ہمارا دو، کل اقتدار اور لوٹ مار کا سورج چڑھے، نہ چڑھے کچھ پتہ نہیں۔
وطن عزیز میں چند ایک کے سوا وزراء کرپشن کے راجہ، بعض بڑوں کے بچے اور دوست کرپشن کے مہاراجہ ہیں۔ کرپشن سے پردہ تو وہ اٹھائیں جن کا اپنا دامن صاف ہو۔ بھارت میں اپوزیشن نے کرپٹ وزیر کے انجام تک پہنچنے تک لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اجلاس نہیں چلنے دئیے۔ ہمارے ہاں عملاً اپوزیشن کا وجود ہی نہیں۔ ہر پارٹی حکومتی پارٹی ہے۔ بزعمِ خویش اپوزیشن اور حکومتی اتحادی آر جی ایس ٹی کے نفاذ کے خلاف جوش میں آئیں تو حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کر کے اپنے ہاتھوں سے مشکلات کو آسانیوں اور کانٹوں کو پھولوں میں بدل دیتے ہیں۔ پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے دیوالیہ ہو گئے۔ کسی نے پورے زور سے معاملہ اٹھایا نہ اصلاح کی کوشش کی۔ وزارت حج میں اربوں کے گھپلے ہوئے۔ ثبوت موجود ہیں ملزم سامنے ہیں، کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ رینٹل پاور پلانٹس منصوبوں میں اربوں روپے اڑا لئے گئے۔ اس رقم سے بیرون ممالک اکائونٹس بھرے گئے اور محلات تعمیر ہوئے پاور پلانٹ نصب ہوتا ہے، چلتا ہے، ڈیڑھ دو ماہ بعد بیمار، علاج کے لئے لگانے والے آئیں گے تو چلیں گے۔ ان کی گارنٹی ختم۔ اب نئی فیس لیں گے۔ لیکن آئیں گے کب؟ جب فرصت ہو گی۔
کہتے ہیں کرپشن کے معاملات وکی لیکس کے شور شرابے میں دب گئے۔ عجب استدلال، صدر اور وزیراعظم کے دورے تو وکی لیکس سے متاثر نہیں ہوئے۔ کسی تفتیش کار اور تحقیق کار کی اولاد کی شادی اور سالگرہ ملتوی نہیں ہوئی۔ وزیروں مشیروں اور بیورو کریٹس کے معاملات پہلے کی طرح چل رہے ہیں کسی کے کھانے میں فرق آیا نہ پینے اور پلانے میں۔ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرین آزاد اور خودمختار ہیں اس کا اظہار بھی ہونا چاہئے۔ ہر پارلیمنٹیرین بدعنوان، بددیانت اور بے ایمان نہیں۔ پاکستان غریب ہے نہ پاکستانی، البتہ کچھ لوگوں نے وطن کو اس طرح لوٹا کہ ایک طبقہ روٹی روزی تک کا محتاج ہو گیا۔ لوگ روٹی کی خاطر جیل جانے کو تیار ہیں کہ وہاں کھانا تو دو وقت مل جایا کرے گا۔ پاکستان کو لوٹنے والوں کا سرمایہ دوسرے ممالک میں محلات، کاروبار اور بنک اکائونٹس کی صورت میں محفوظ پڑا ہے۔ کتنا؟ اس کا اندازہ سوئس بنک کے ایک ڈائریکٹر کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے اس کا کہنا ہے ’’سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 280 لاکھ، کروڑ ڈالر جمع ہیں۔ اتنی بڑی رقم سے 30 سال تک ٹیکس فری بجٹ پیش کیا جا سکتا ہے۔ 60 کروڑ پاکستانیوں کو ملازمت مل سکتی ہے۔ ہر گائوں سے اسلام آباد تک 4 لین کا موٹروے تعمیر ہو سکتا ہے۔ ہر شہری کو 60 سال تک فی ماہ 2 ہزار وظیفہ دیا جا سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے نہ صرف قرض لوٹائے جا سکتے ہیں بلکہ آئندہ قرضوں کی ضرورت بھی نہ رہے گی… یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے جو کرپٹ لوگ لے اڑے ہیں۔ اسے واپس لایا جا سکتا ہے اگر ایماندار، دیانتدار اور باضمیر پارلیمنٹیرین بلاامتیاز سیاسی وابستگیوں کے متحد ہو کر عوام کی آواز بن جائیں۔ کرپٹ سیاستدانوں، بیورو کریٹس سے پائی پائی وصول ہونے تک پارلیمنٹ کو جام کر کے رکھ دیں۔ یہ متحد ہو کر اپنا قومی فریضہ اور کردار ادا کریں تو قوم ان کے ساتھ ہے۔
No comments:
Post a Comment