ہفتہ ، 25 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے امریکی اسلحہ کمپنی کے سربراہ سے ملاقات کے دوران ہتھیاروں کی خریداری کا سودا طے کیا۔ اگلے روز وزیراعظم نے معاہدے کی تفصیلات کابینہ کے سامنے رکھیں تو کابینہ نے سرے سے معاہدے کو مسترد کر دیا۔ کابینہ کا استدلال تھا ”اتنے مہنگے ہتھیاروں کی خریداری سے قوم کو برسوں تک ایک وقت کے کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔“ گولڈا میئر نے کابینہ کے دلائل سے اتفاق کیا تاہم جوابی دلائل دیتے ہوئے باور کرایا کہ اسرائیل جنگ جیت گیا تو دنیا اسے فاتح قرار دیگی۔ کوئی یہ نہیں دیکھے گا کہ فاتح قوم نے کتنی فاقہ کشی کی، دن میں کتنا‘ کتنی بار اور کیا کیا کھایا‘ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔ یوں گولڈا میئر نے اپنے دلائل سے کابینہ کو قائل کرلیا۔ پھر اسی معاہدے کے تحت خریدے گئے مہنگے ترین اسلحہ سے اسرائیل نے 1973ءمیں عربوں سے جنگ جیت لی۔ اس جنگ کے کچھ عرصہ بعد گولڈا میئر سے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے پوچھا کہ اسلحہ کی خریداری کیلئے انکے ذہن میں دلائل کیسے آئے؟ گولڈا میئر کا جواب چونکا دینے والا تھا جو ہم مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے بھی کافی ہے:
”میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں یعنی مسلمانوں کے نبی سے لیا تھا۔ جب محمد کا وصال ہوا تو انکے گھر میں چراغ کیلئے تیل خریدنے کی رقم بھی نہیں تھی۔ انکی اہلیہ (حضرت عائشہؓ) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا۔ اس وقت بھی محمد کے حجرے کی دیواروں پر 9 تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کو جانتے ہوں گے، لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں یہ بات پوری دنیا جانتی ہے لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے مسلمانوں کی طرح، پختہ مکانوں کے بجائے خیموں میں زندگی گزارنی پڑے مسلمانوں کی طرح، تو بھی اسلحہ خریدینگے اور فاتح کا اعزاز پائینگے مسلمانوں کی طرح، ان مسلمانوں کی طرح جنہوں نے آدھی دنیا فتح کی لیکن آج یہ اپنی تاریخ کو بھلا چکے ہیں اس لئے بھی فتح کا ایک موقع موجود ہے“۔
آج اکثر مغربی ممالک فلاحی ریاستیں بن چکے ہیں جہاں تعلیم اور صحت کی سہولتیں حکومت کی طرف سے بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ بیروزگار، بیمار یا زخمی ہونیوالے کا الاﺅنس مقرر کردیا جاتا ہے۔ بے گھروں کی رہائش کا انتظام بھی حکومت کے ذمے ہے۔ فلاحی ریاست کا نظریہ اتباع رسول میں خلفائے راشدین نے پیش کیا جس سے مغرب نے استفادہ کیا۔ خلفاءنے ہر پیدا ہونیوالے بچے کا وظیفہ مقرر فرمایا۔ غریبوں، بیواﺅں اور لاوارثوں کو ریاستی وسائل کا حصہ دار قرار دیا۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ زکوٰة کا پیسہ ہاتھوں میں لئے مستحقین کو تلاش کیا کرتے تھے۔ آج ہمارے آباءکی تعلیمات کو اپنانے والے خوش قسمت، سبھاگی، ہم ترک کرنیوالے بدقسمت نراگی اور ابھاگی ٹھہرے۔
حضرت قائداعظمؒ پاکستان کو آباءکے نعش قدم پر چلتے ہوئے ترقی یافتہ‘ خودمختار‘ باوقار، اسلامی، جمہوری، فلاحی اور رفاعی مملکت بنانا چاہتے تھے۔ حضرت قائداعظمؒ نے اپنی تقاریر اور پریس کانفرنسوں سے واضح کیا کہ پاکستان کا منتہائے مقصود ایسا نظام حکومت ہے جو اسلام کے روشن اصولوں پر مبنی ہوگا۔ قائداعظمؒ رسول اکرم کو عظیم مصلح، قانون دان، رہنمائ، سیاستدان اور حکمران سمجھتے تھے۔ وہ اکثر فرماتے تھے کہ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح آج سے 1300 سال قبل تھے۔
بدقسمتی سے قائداعظمؒ قیام پاکستان کے بعد جلد وصال فرما گئے۔ وہ چند سال اور امور مملکت کی نگرانی فرما جاتے تو یقیناً پاکستان اسلامی، فلاحی، جمہوری اور ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ قائداعظمؒ کے بعد انکے پائے کا ایک بھی لیڈر ہمیں نہ مل سکا۔ جو بھی لیڈر آئے اکثر کی سوچ خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر کسی نے کچھ کر گزرنا چاہا تو تخت سے ہٹا دیا گیا یا تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ ہم نے تاریخ کو بھلا دیا تو تاریخ نے بھی ہمیں ہمارا مقدر لوٹا دیا۔ آج ہم راہ راست پر آجائیں، اپنی تاریخ سے سبق حاصل کریں، ذاتی مفادات کو چھوڑیں، قومی مفادات کا سوچیں، وطن عظیم میں وسائل کی کمی نہیں، ضابطہ ¿ حیات موجود ہے۔ درخشاں تاریخ اور قائد کی تاکید ہمارے لئے مشعل اور رہنما ہے۔ اس پر عمل کریں تو ہم اب بھی خوددار، خودمختار، باوقار، اسلامی، جمہوری، فلاحی، رفاعی اور ترقی یافتہ ملک کی تعمیر کرسکتے۔
No comments:
Post a Comment