تعلیم پیشہ پیغمبری ہے۔ نبی آخرالزمان نے فرمایا مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے جس سے میں نے ایک بھی لفظ سیکھا وہ میرا استاد اور قابلِ احترام ہے۔ ہمارے معاشرے میں استاد کو وہ مقام نہیں ملتا جس کا وہ سزاوار ہے۔ اسے حق مانگنے کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہئے۔ حکومت اس کے مسائل اس کی زبان پر آنے سے قبل حل کر دے۔ وہ قوم کا معمار ہے۔ نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اس کا ذہنی طور پر مطمئن ہونا ناگزیر ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث استاد کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ وہ اپنا حق مانگتا ہے تو ڈنڈے پڑتے ہیں اور دشنام ملتا ہے۔ استاد امور مملکت چلانے کے لئے نسلیں تیار کرتا ہے لیکن بے بس اتنا کہ جن تعلیمی اداروں میں تدریس کرتا ہے ان میں اپنی اولاد کو تعلیم دلانے کی سکت نہیں رکھتا۔
دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے ہم جہاں تھے وہیں ہیں۔ اگر تعلیم اور معلم کی طرف توجہ نہ دی گئی تو صدیوں تک یہیں کھڑے رہیں گے۔ استاد، استاد ہے وہ ابتدائی کلاسوں کا ہو یا انتہائی کا۔ اس کا احترام سب پر واجب ہے۔ اساتذہ کو ڈنڈے مارنے اور مروانے والوں کو شاید خود کھائی ہوئی مار کا غصہ ہو۔ استاد نے اگر مارا تو یہ اس کا ہی ثمر ہے کہ تعلیم حاصل کی تو آج کوئی ڈنڈا پکڑنے والا بن گیا اور کوئی ڈنڈا پکڑانے والا۔ استاد کے احترام اور اس کو معاشی مسائل سے نجات دلائے بغیر ملکی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں پرائمری اساتذہ کی تنخواہیں کالجز کے اساتذہ سے بھی زیادہ ہیں۔ تعلیم کی اصل بنیاد پرائمری میں رکھی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیمی میدان میں سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ پرائمری اور مڈل کے اساتذہ ہیں۔ اوپر کے اساتذہ کے گھروں میں بھی کچھ لالہ و گل کھلتے ہیں نہ کہکشائیں اترتی ہیں تاہم ان کی حالت نسبتاً بہتر ہے۔ فوج اور پولیس کی تنخواہ دگنا کی گئی ہیں۔ یہ اچھا ہوا۔ باقی ملازمین کی تنخواہ اور مراعات بھی دگنا ہونی چاہئیں۔ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا ہے تو استاد کو اس کا مقام اور احترام دیں۔ وہ آپ کو اچھی قوم دے گا۔ استاد کو معاشی پریشانی سے نجات دلا دی جائے، اس کی پوری توجہ یکسوئی کے ساتھ تدریس پر ہو۔ کہیں کنٹریکٹ اساتذہ پریشان تو کہیں ایجوکیٹر پشیمان اساتذہ جو کہتے ہیں مان لیں‘ ان کو غلام نہیں تعلیم کا امام سمجھیں۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ ان کی تنخواہ اور دیگر مراعات تین گنا کر دی جائیں۔افغانستان میں اتحادی افواج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریئس نے پاکستان پہنچنے کے بعد آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی سے تفصیلی ملاقات کی ہے۔
ایک باڑ گرانے، دوسری لگانے کی ضرورت
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 19 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
ایک پیسٹی سائیڈ ملٹی نیشنل کمپنی کے پاکستانی ورکر قصور کے نواح میں فصلوں کا جائزہ لیتے ہوئے کسانوں کو مشورے دے رہے تھے۔ سامنے خاردار تاروں کی باڑ نظر آئی تو پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان بھارت سرحد ہے۔ دونوں نوجوان پہلی بار بارڈر کے نزدیک آئے تھے۔ اشتیاق ہوا کہ پاکستان بھارت بارڈر کو قریب سے دیکھا جائے۔ باڑ کے ساتھ دو کسان بھینسیں اور گائیں چرا رہے تھے۔ پیسٹی سائیڈ کمپنی کے ملازم ان کی طرف قدم بڑھاتے چلے گئے۔ دل ہی دل میں یہ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ واپس جا کر گاﺅں میں والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں کو کہانیاں سنائیں گے کہ بارڈر پر کھڑے ہو کر ہندوستان دیکھا۔ بارڈر‘ باڑ‘ اور ہندوستان کیسا لگا سب بتائیں گے۔ چند منٹ میں باڑ کے چند گز فاصلے پر پہنچے تو مویشی چراتے کسانوں سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ کسانوں کے ہاتھ کی گرفت معمول سے زیادہ مضبوط اور سخت تھی۔ ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ہوئے ہی ایک کسان نے کہا
I am inspector Sharma of Indian BSF both of you are under arrest
یہ سنتے ہی پاکستانی نوجوانوں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اس کے بعد اگلا سوال تھا ”تم یہاں کیا لینے آئے ہو اور کس نے بھیجا ہے؟ نوجوان اپنی صفائی میں جو کچھ کہہ سکتے تھے کہا، بی ایس ایف والوں نے ماننا تھا نہ مانے۔ نوجوانوں کے لئے پریشانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ باڑ کے دوسری طرف انڈیا ہے۔ انڈین بی ایس ایف کا ادھر کیا کام؟ بہرحال تلخ حقیقت یہی تھی کہ دونوں پاکستانی بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کی حراست میں تھے۔ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ وزٹ ویزے پر گئے پاکستانی بھارت سے صحیح سلامت واپس نہیں آتے، ان پر تو انسپکٹر شرما نے جاسوسی کا الزام بھی لگا دیا تھا۔ ہاتھ چھڑا کر دونوں نوجوان کوشش کرتے تو بھاگ سکتے تھے لیکن ان کو چیک پوسٹ پر بیٹھے بھارتی فوجیوں کی ان کا نشانہ لئے ہوئے گنیں نظر آ رہی تھیں۔ جائے رفتن، نہ پائے ماندن۔ اسی کشمکش میں دور سے ایک نوجوان ان کی طرف بھاگتا ہوا نظر آیا۔ نزدیک آ کر اس نے رینجرز کے حوالدار کے طور پر اپنا تعارف کرایا۔ نوجوانوں سے ان کی آپ بیتی سنی، جو اسے یہ بے قصور نظر آئے۔ بی ایس ایف والوں سے ان کو چھوڑنے کی درخواست کی۔ وہ کچھ سننے اور ماننے پر تیار نہ تھے۔ ان کو یقین دلایا اور جنٹل مین پرامز کیا کہ ہماری انوسٹی گیشن میں یہ قصور وار نکلے تو آپ کے حوالے کر دیں گے۔ بڑی مشکل سے بی ایس ایف والے مانے۔ آدھے گھنٹے بعد ان کے ہاتھوں سے گرفت ڈھیلی کی اور رینجرز کے حوالدار کے حوالے کر دیا۔ رینجرز نے مکمل انوسٹی گیشن کے بعد، ان کے فون نمبرز اور ایڈریس لے کر دونوں کو چھوڑ دیا۔پاکستان کی چین کے ساتھ سرحد کی لمبائی 592‘ ایران کے ساتھ 805‘ افغانستان کے ساتھ 2252 اور بھارت کے ساتھ 1600 کلومیٹر ہے۔ بھارت نے سرحد پر اپنی طرف خاردار تاروں کی باڑ لگا کر جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کر لی ہیں اور چپے چپے پر لائٹیں لگا دی ہیں۔ ہماری طرف سرحد پر رینجرز تعینات ہے جس کی فاصلے فاصلے پر چوکیاں ہیں۔ بھارت نے باڑ لگاتے ہوئے پاکستان کی طرف دو ایکڑ جگہ چھوڑی ہوئی ہے جہاں بھارتی کسان بی ایس ایف کی نگرانی میں ہل چلاتے پانی لگاتے کاشت کاری کرتے اور بھینس گائے بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔ پاکستان کی طرف ایک کتا اور بلی بھی باڑ کراس کرکے بھارت کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بھارتی ایجنسیاں مکمل طور پر آزاد ہیں کہ 1600 کلومیٹر کے علاقے میں جہاں سے چاہیں باڑ کے پار آ کر اپنے رقبے میں جو چاہیں کریں۔ وہ کر بھی رہے ہیں۔ بارڈر پار شراب، اسلحہ اور دہشت گرد پہنچا دینا بی ایس ایف، بھارتی فوج اور را کے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ادھر پاکستان کی طرف سرحد پر بیٹھے سارے کسان اور کاشتکار ایمان کے پکے اور قول کے سچے نہیں۔ بھارت کو صرف تین چار فیصد بھی اپنے مطلب کے لوگ مل جائیں تو پورا پاکستان بارود کا ڈھیر بن سکتا ہے۔ ایسا بھی ہو رہا ہے۔ پاک فوج نے کبھی دفاع پر کمپرومائز کیا نہ قوم نے دفاعی معاملات میں کبھی کنجوسی کی۔
پھر پاکستان کی طرف سے بارڈر غیر محفوظ کیوں؟ جس کے باعث پورا وطن دشمن کے نشانے پر ہے۔ بھارت آبادی، رقبے، فوج اور اسلحہ کے حوالے سے پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے اوپر سے عیار اور مکار بھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کےلئے تو ہماری طرف سے کئی گنا زیادہ انتظام اور اہتمام کی ضرورت ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے ہم اس سے کئی گنا پیچھے ہیں۔ اب اس کا ازالہ کیا جائے۔ آج جہاں آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بھارت کی طرف سے لگائی گئی باڑ گرانے‘ وہیں پاک بھارت سرحد پر اپنی طرف باڑ لگانے کی ضرورت ہے۔ قوم آر جی ایس ٹی کے نام پر ایک پیسہ دینے کو تیار نہیں کیونکہ سب بڑے پیٹوں میں چلا جائے گا۔ فوج عوام سے باڑ لگانے کیلئے فنڈز کیلئے کہے تو یقین کیجئے مرد و زن نوٹوں اور زیورات کے ڈھیر لگا دیں گے۔ اس نہ صرف پاکستان بھارت سرحد پر باڑ لگائی جا سکی بلکہ ڈیورنڈ لائن کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا۔
آج : پیر ، 13 دسمبر ، 2010
e-اخبار
نوائے وقت
آج کااخبار
قلم اور کالم
کالم
اداریہ
ایڈیٹر کی ڈاک
نوربصیرت
ادارتی مضامین
سرے راہے
مضامین
اوورسیز
نیو یارک
واشنگٹن
لندن
برسلز
پیرس
کویت
مکہ
مدینہ
جدہ
دبئی
طاّئف
سپین
ریاض
فوٹو گیلری
سیاست کھیل تفریح کاروبار بین الاقوامی قومی علاقائی اوورسیز
تازہ ترین:
افغانستان میں اتحادی افواج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریئس نے پاکستان پہنچنے کے بعد آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی سے تفصیلی ملاقات کی ہے۔
کرپشن کی سزا موت
فضل حسین اعوان بالکل ابھی شائع کی گئی
کوئی بھی ملک معیشت، معاشرت، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری اور باقی دنیا سے بے نیازی کا دعویٰ اور مظاہرہ نہیں کر سکتا، حتیٰ کہ سپر پاور امریکہ بھی نہیں۔ امریکہ کا جدید اسلحہ سازی میں ایک مقام ہے اس کے باوجود امریکہ نے گزشتہ سال کروشیا سے پہلے مرحلے میں 19 ہزار روسی ساختہ اے کے 47 کلاشنکوفیں خریدنے کا معاہدہ کیا۔ افغانستان میں امریکی فوجی ایم 16 رائفل استعمال کرتے ہیں جو معمولی سی ریت پڑنے پر کام چھوڑ دیتی ہیں جبکہ اس علاقے میں کئی دہائیوں سے کلاشنکوف کی بہترین کارکردگی چلی آ رہی ہے۔
کروشیا وسطی یورپ کا چھوٹا سا ملک ہے جہاں جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق بغیر کسی آلائش اور منافقت کے رائج ہے۔ جہاں ایو سنیڈر 2003ء سے 2009ء تک وزیراعظم رہے۔ انہیں جولائی 2009ء میں کرپشن کے الزامات پر استعفیٰ دینا پڑا۔ ان الزامات میں کسی دوسرے ملک میں غیر قانونی اکاؤنٹ کھولنے کا الزام فرانس برطانیہ یا کسی اور ملک میں جائیدادیں بنانے، کاروبار چلانے یا محلات تعمیر کرانے کا، کروڑوں وصول کر کے عہدے بانٹنے کا نہ رینٹل پاور پلانٹس سے اربوں کا کمشن مارنے کا۔ ان پر اپنے دور میں پارٹی کے لئے فنڈز جمع کرنے کا الزام تھا جسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔ کرپشن کے الزام پر ایو سنیڈر وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوئے تو ان کو کروشین ڈیموکریٹ اتحاد نے پارٹی سے بھی نکال دیا۔ 9 دسمبر کو سرکاری پراسیکیوٹر نے پارلیمنٹ سے وزیراعظم کا استثنیٰ ختم کرنے کی درخواست کی، اس پر تمام 104 پارلیمنٹرین نے متفقہ فیصلہ دیا۔ وزیراعظم کا استثنیٰ ختم ہوا تو کروشیا حکومت کی طرف سے سابق وزیراعظم ایو سنیڈر کے عالمی گرفتاری وارنٹ جاری کر دیے گئے۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح ایو سنیڈرکی بھی دوسرے ملک کی شہریت اور وہاں کاروبار تھا۔ استثنیٰ ختم ہوتے ہی وہ آسٹریا چلے گئے جہاں بھی جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ آسٹریا میں عالمی وارنٹ گرفتاری کی اطلاع پہنچی تو ایو سنیڈر کو گرفتار کر لیا گیا۔ آسٹریا کی وزارتِ انصاف نے کروشیا حکومت کو گرفتاری کی اطلاع دیتے ہوئے اپنا ملزم لے جانے کو کہا ہے۔ استثنیٰ کا خاتمہ، وارنٹ کا اجراء اور گرفتاری یہ تمام عمل صرف 48 گھنٹے میں مکمل ہو گیا۔
ہمارے ملک میں تمام تر مسائل، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، بہت سی اشیاء کی قلت، ذخیرہ اندوزی، تعلیم و صحت کی سہولتوں کی عدم فراہمی، رشوت، چوری ڈکیتی اور رہزنی کی ایک ہی وجہ کرپشن ہے۔ ایک طرف غربت و افلاس کی وجہ سے سسکتی انسانیت دوسری طرف لوٹ مار سے دولت کے انبار، بے حد و بے حساب، غریب کے خون پسینے کی کمائی سے چمکتی لشکتی لاکھوں کروڑوں روپے کی گاڑیاں اربوں روپے سے تعمیر شدہ محلات و ماڑیاں۔ پاکستان میں ایک صرف کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو ملک خوشحال، معاشرہ نہال اور تمام تر قرضوں سے نجات اور خلاصی ہو سکتی ہے۔ کرپشن زیادہ سے زیادہ کی سزا بھی 14 سال ہے اس پر بھی کہیں عمل ہوتا ہے کہیں نہیں، عموماً پولیس کا سپاہی اور محکمہ مال کا پٹواری پکڑا جاتا ہے لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کھربوں روپے کی لوٹ مار کرنے والے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر پکڑے جائیں تو پکڑنے والے سے چھڑانے والے زیادہ طاقتور ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اعجاز چودھری نے کرپشن کا حل سزائے موت تجویز کیا ہے۔ اس کے لئے نیب کو پارلیمنٹ سے قانون سازی کی درخواست کرنا پڑے گی جس طرح کروشیا کے پراسیکیوٹر نے پارلیمنٹ سے وزیراعظم کا استثنیٰ واپس لینے کی درخواست کی تھی۔ پاکستان میں گو کم ہی سہی بااصول اور باضمیر پارلیمنٹرین موجود ہیں۔ کرپشن پر سزائے موت کا بل آیا تو کرپٹ اور حرام خوروں کے لئے بھی اس کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ قانون منظور ہونے کی صورت میں پرانی کرپشن کی ریکوری کی صورت میں جاں بخشی کر دی جائے۔ قانون سازی کے بعد کرپشن کرنے والے کو لٹکایا جائے۔ معاملہ اوپر سے شروع کر کے نیچے تک لایا جائے۔ اب اس سوال کی ضرورت نہیں کہ قانون پر عمل کون کرائے گا۔ آج عدلیہ آزاد بھی ہے اور فعال بھی، غیر جانبدارانہ اور جرأت مندانہ فیصلے کر سکتی ہے تو ان پر عمل بھی کرا سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment