منگل ، 14 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
ہم چاہتے ہیں استاد قوم کا معمار ہو، قوم کے مستقبل کی مثبت سوچ اور راست سمت کا تعین کرے۔ ہم بطور معاشرہ استاد کا استحصال کر کے اس سے کمال کی توقع رکھتے ہیں، استحصال ہو تو زوال کے خدشات سے آنکھیں نہیں چرانا چاہئیں۔ استاد کا احتساب ضرور ہونا چاہئے لیکن پہلے اسے مطمئن کیا جائے اس کے مسائل حل کئے جائیں اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے۔ پی ٹی سی ٹیچر سے لے کر پروفیسرز تک اساتذہ کے تحفظات ہیں۔ کہیں کنٹریکٹ کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے تو کہیں پروموشن بھٹک رہی ہے۔ یونیورسٹی، کالج اساتذہ کی تعلیم اور کوالیفکیشن یکساں، یونیورسٹی ٹیچر کو گریڈ 18 کالج کے استاد کو گریڈ 17 دیا جاتا ہے۔ اس سے ذرا کم سطح پر بھی یہی ناانصافی۔ اور پھر نچلی سطح تک استاد سے زیادتی کا سلسلہ جاری ہے۔ سفارش اقربا پروری سے میرٹ، ڈی میرٹ اور ڈی میرٹ، میرٹ بن جاتا۔ فوج اور پولیس کی تنخواہ دوگنا کر دی گئی، ججوں کی تین گنا، باقی چونکہ بے ضرر اس لئے صرفِ نظر۔ حکومت چونکہ لاتعلق اس لئے اساتذہ ہی نہیں پورا تعلیمی سسٹم معلق۔ ملک میں بہت سے ادارے لاوارث، ان میں شعبہ تعلیم بھی شامل ہے۔
تعلیمی انحطاط کے جہاں اس کے کرتا دھرتا ذمہ دار ہیں وہیں اساتذہ کا بھی کردار ہے۔ آئیڈیل اساتذہ کتنے ہونگے؟ دس فیصد یا پندرہ فیصد؟ اگر کسی کو خوش گمانی ہو تو فیصد میں مرضی سے اضافہ کر لے۔ ہمارے گائوں کے ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض سکولوں میں ہیڈ ماسٹر مہینے بعد جاتے ہیں یہ لاہورئیے اب مہینے بعد بھی نہیں جاتے۔ لاہور سے 100 کلومیٹر دور سکول کی گاڑی بغیر ڈرائیور کے چل رہی ہے۔ بغیر کیپٹن کے ٹیم کیسے کھیلے گی تو ڈسپلن کی کیا حالت ہو گی؟ اس کا اندازہ کر لیجئے۔ یہ صورتحال ایک ادارے کی نہیں ہر تیسرے تعلیمی ادارے کی ہے۔ شہروں کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔ یہاں اساتذہ کی حاضری سو فیصد ہے، حاضری لگانے کی حد تک۔ حاضری کے وقت استاد سکول کالج اور یونیورسٹی میں ملیں گے پھر ایک ایک کر کے نکلتے چلے جاتے ہیں۔ حاضری واجب، کلاسیں نہ لینا فرض، اکیڈیمیوں کی نوکری فرض عین۔ اکیڈیمیوں میں پڑھانے کے لئے پوری صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں صرف دل بہلاتے ہیں۔ سکول کالج یونیورسٹی میں گپ شپ چائے کے دور چلتے۔ اکیڈیمیوں میں پڑھانے کی تیاری کی جاتی ہے۔ یہی استاد اکیڈیمی میں ٹیسٹ لے کر گھر یا تعلیمی اداروں میں بیٹھ کر مارکنگ کر کے اگلے دن طلبا و طالبات کو شیٹ واپس کرتے ہیں اس لئے کہ مراعات بے شمار اور جوابدہی کا بھی ڈر۔ ایسا سرکاری اداروں میں نہیں کیا جاتا۔ اس لئے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سکول کالج میں ایک دو پیریڈ پڑھانے سے جان جاتی ہے۔ اکیڈیمی میں بخوشی پانچ پانچ چھ چھ پیریڈ لیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے استاد کالم لکھتے ہیں، شاعری کرتے ہیں، ٹی وی پر مذاکروں اور مباحثوں میں بیٹھے ہوتے ہیں کتاب پہ کتاب مارکیٹ میں آ رہی ہے۔ ان کے پاس اتنا وقت کہاں سے آ گیا؟ ریٹائرمنٹ کے بعد جو چاہیں کریں۔ نوکری کے دوران ایسا کرنا طلبا کا حق مارنا ہے۔ بات عمومی رویے کی ہو رہی ہے سب استاد ایک جیسے نہیں ایماندار اور دیانتدار بھی ہیں ان کی تعداد کتنی ہے والدین اور عام آدمی کو پتہ ہے جن کو نہیں پتہ وہ گلی گلی کھلی اکیڈیمیوں کی تعداد سے اندازہ کر لیں۔ اب تو ٹیوشن کی وبا دیہات میں بھی پھیل گئی ہے۔ ٹیوشن کلچر اور اکیڈیمی مافیا سے دردِ دل رکھنے والے اساتذہ بھی دلبرداشتہ ہیں وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تاہم اپنے حصے کا کردار ادا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جس استاد کو جہاں چاہتی ہے حکومت لگا دیتی ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبات کے کالج میں تعینات ہونے والے دیانتدار استاد کی حالت دیدنی ہے جب اس کے سامنے گھگو قسم کے سٹوڈنٹ بٹھا دئیے جاتے ہیں۔ میٹرک، ایف ایس سی کے بعد میرٹ بنتا ہے ٹاپ والے طلبا بڑے شہروں کے بڑے تعلیمی اداروں میں لے لئے جاتے ہیں، جو بچ جائیں نسبتاً کم میرٹ والے کالجوں میں ایک آدھ سپلی اور مر کر پاس ہونیوالے نواحی علاقوں کے کالجز میں۔ پھر یہاں استاد کیا کرے؟ پورا زور بھی لگا لے تو بڑے کالجوں کے مطابق رزلٹ نہیں دے سکتا۔
استاد کے پاس حکومت کی طرف سے نظرانداز کئے جانے پر زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے ٹیوشن پڑھانے کا جواز ہے لیکن اپنے فرائض میں غفلت کوتاہی کا کوئی جواب نہیں۔ مراعات لے کر جانفشانی دکھانے کی سوچ کو مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پہلے اپنا ڈسپلن بہتر بنائیں۔ تمام تر مشکلات کے باوجود پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے بڑھ کر رزلٹ دیں تو حکومت خود ان پر نوازشات کے لئے سوچنے پر مجبور ہو گی۔
No comments:
Post a Comment