About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, December 16, 2010

کاش جنرل نیازی عزت کی موت کا انتخاب کرتے

جمعرات ، 16 دسمبر ، 2010
سقوطِ مشرقی پاکستان
فضل حسین اعوان ـ
1971ء کو صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان اور مشرقی پاکستان میں فوجی کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے ہاتھوں پاکستانی قوم اور اسلامی تاریخ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذلت کے سائے، دلدوز یادیں، درد اور کرب بدستور موجود ہیں اس روز قائداعظم کا خون جگر و دل دیکر بنایا ہوا پاکستان دولخت ہو گیا 90 ہزار فوجی ازلی وابدی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ یہ یقیناً اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی شکست تو نہیں ہے تاہم سب سے بڑا سرنڈر ضرور ہے۔ سرنڈرز کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ریکارڈ جاپان کے پاس ہے جس کی 72 لاکھ بری اور فضائی افواج نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر امریکہ کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے تھے۔ اس سے قبل 15 فروری 1942ء کو ملایا اور سنگاپور کے محاذ پر برطانوی جرنیل پرسیول نے ایک لاکھ 30 ہزار سپاہ کے ساتھ جاپانی جرنیل یاماشیتا کے سامنے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کیا تھا۔ ہمیں عالمی سرنڈرز سے بالکل اسی طرح غرض نہیں ہے جس طرح جنرل نیازی کے دہلی میں نیول گیلری میں نمائش کے لئے رکھے گئے یادگار پسٹل کی چوری سے نہیں ہے۔ سات اعشاریہ 6کا یہ پسٹل جون 2003ء کو چوری ہوا اس پسٹل کے ساتھ نیازی کی دستخط شدہ سرنڈر کی دستاویز بھی موجود تھیں جو محفوظ ہیں۔ نیازی کی ٹوپی کہاں وردی کہاں، پستول کہاں اور غیرت و حمیت کہاں اس سے سروکار نہیں، ان کے کردار سے اسلامی تاریخ جس طرح داغدار ہو گئی اس کو دھونے اور مٹانے کی ضرورت ہے۔ 
شکست کھیل اور الیکشن کا لازمی جزو ہے۔ جنگ میں شکست کا تصور نہیں، جنگ صرف اور صرف فتح و نصرت کے لئے لڑی جاتی ہے طارق بن زیاد نے کشتیاںجلا کر درس دیا جنگ کا انجام فتح یا موت ہے، اس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ شکست کی ذلت سے عزت و غیرت کی موت کہیں بہتر ہے۔ ہمیں اسلامی تاریخ کے سقوط یاد دلاتے اور باور کراتے ہیں کہ شکست تسلیم کرنے والوں کا انجام ہمیشہ بھیانک اور عبرت ناک ہوا۔10 فروری 1258ء میں منگول سردار ہلاکو نے حملہ کرکے بغداد کو فتح کیا۔شہر کو آگ لگا دی لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خون مسلم سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا۔ ہلاکو کے سامنے آخری عباسی خلیفہ المستعصم بااللہ کو پیش کیا گیا۔ خلیفہ فاقے سے تھا ہلاکو نے اس کے سامنے ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات پلیٹ میں رکھ کر کھانے کیلئے پیش کئے۔ خلیفہ نے کہا یہ میں کیسے کھا سکتا ہوں؟ ہلاکو نے طیش میں آکر کہاتو ان کو اکٹھا کرنے کے بجائے دشمن کے ساتھ لڑنے کا انتظام کیوں نہ کیا ایسا کیاہوتا تو آج یوں بے بس نہ ہوتا… اس کے ساتھ ہی اسے قالین میں لپیٹ کر زمین پر پھنکوایا اور اوپر سے گھوڑے دوڑوا دیئے۔
2 جنوری 1492ء اسلامی تاریخ کا ایک اور شرمناک اور عبرت ناک دن ہے۔ اس دن اندلس میں مسلمانوں کے 8 سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ دن مسلمانوں پر بھاری تھا۔ یہ سقوط اندلس کی پہلی شام تھی جو مسلمانوں کیلئے طویل ترین تاریک رات کا آغاز ثابت ہوئی۔ اس شام پہلی بار مسجدوں سے مغرب کی اذان سنائی نہیں دی۔ اس کے بجائے ہرطرف مسلمانوں کی چیخ پکار سنائی دیتی تھی۔ بے لباس خواتین عزتیں بچانے کیلئے بھاگ رہی تھیں لیکن کہاں جاتیں، بے غیرتی کی انتہا کہ غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ بابِ دل معاہدے کے تحت شہر کی چابیاں ملکہ ازابیلا اور شہنشاہ فرڈی ننڈس کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اپنی ذلالت و زذالت کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کیا جا رہا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کیلئے ابو عبداللہ اور شاہی خاندان کے دیگر افراد اور امرا زرق برق لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ان کے زرہ بکتر سونے چاندی کی لڑیوں سے چمک دمک رہے تھے پھر جب چابیاں ملکہ ازابیلا کو تھما دی گئیں تو ابو عبداللہ بابِ دل، شدت غم سے آنسو بہانے لگا، اسی موقع پر اس کی والدہ نے کہاتھا اگر بہادروں کی طرح لڑ نہیں سکتے تھے تو بزدلوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو۔پھر ہمارے سامنے سقوط مشرقی پاکستان کی حقیقت ہے جس نے اسلامی تاریخ کو گہنا دیا۔ غرناطہ کی چابیاں ابوعبداللہ نے دشمن کے حوالے کیں تو ڈھاکہ اس کے ہم نام امیر عبداللہ نے ہندوستان کے حوالے کردیا۔ وہی ہندوستان جس پر مسلمانوں نے ہزار سال حکومت کی تھی۔ ابوعبداللہ کے تو سقوط غرناطہ کے بعد آنسو بہہ نکلے تھے جنرل امیر عبداللہ نیازی کو پوری زندگی امہ کی عزت و آبرو مکار دشمن کے سامنے گروی رکھنے کا افسوس نہ ہوا بلکہ کہتے رہے کہ وہ90 ہزار فوجیوں کو زندہ سلامت نکال لایا ہوں ۔ 90 ہزار عورتوں کو بیوہ اور لاکھوں بچوں کو یتیم ہونے سے بچا لیا۔ جنرل نیازی بھارتی جنرل کو اپنا پستول پیش کر رہے تھے تو ایک بنگالی نے ان کے سر پر جوتے مارتے ہوئے کہا اگر تم میں غیرت ہوتی تو مر جاتے، اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار نہ پھینکتے۔ کاش یہ بنگالی جنرل نیازی کو گولی مار دیتا، جنرل نیازی ہتھیار پھینکنے کا جواز یہ پیش کیا کرتے تھے کہ حاکم وقت کا حکم تھا اسلام میں امیر کی اطاعت واجب ہے تاریخ میں امیر کی حکم عدولی کی مثال نہیں ملتی۔ نیازی صاحب کی شاید ان کے حوصلے کی طرح تاریخ بھی کمزور تھی۔
جنرل انامی کورے چیکا جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرنڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے جاپان کو ایک اور ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے رکھی تھی، بادشاہ نے جرنیلوں کی جنگ جاری رکھنے کی تجویر سے اتفاق نہ کیا اور اپنے طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اپنے کزن سے اس موقع پر کہا ’’ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے‘‘۔۔۔ 14 اگست 1945ء کو انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ ایسا موقع جنرل نیازی پر بھی آیا لیکن جو کچھ اس کے بعد انامی نے کیا نیازی وہ نہ کر سکا۔ سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز جنرل انامی نے خودکشی کر لی۔ جنرل انامی کورے چیکا نے اپنے لئے باوقار موت کا انتخاب کیا۔ کاش جنرل نیازی ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیتے۔


No comments:

Post a Comment