About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, December 23, 2010

بھارت کو واک اوور

23-12-10
فضل حسین اعوان ـ
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد 5، عارضی کی 10 ہے۔ عارضی ارکان کا دو سال کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2010ء میں بھارت عارضی نشست کے لئے امیدوار تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے اقوام متحدہ میں اپنے سفیر ہردیپ سنگھ پوری کے ساتھ مل کر بھرپور مہم چلائی۔ جنرل اسمبلی کے کل 192 ارکان میں سے 190 نے ووٹنگ میں حصہ لیتے ہوئے 187 نے بھارت کے حق میں ووٹ دیا۔ سب سے شرمناک کردار پاکستانی مندوب عبداللہ حسین ہارون کا رہا، اُن کا ووٹ بھی بھارت کی حمایت میں تھا۔ 1996ء میں عارضی سیٹ کے لئے بھارت کا مقابلہ جاپان سے ہوا۔ جاپان نے اس وقت بھارت کو 40 کے مقابلے میں 142 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ 
بھارت کافی عرصہ سے اقوام متحدہ میں سکیورٹی کونسل کی مستقل نشست کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ برطانیہ تین سال قبل بھارت کی حمایت کر چکا ہے۔ امریکہ رواں سال بھارت کی حمایت پر کمر بستہ ہوا ہے۔ چین نے بھی بھارت کی مخالفت نہیں کی۔ نومبر میں اوباما بھارتی دورے پر آئے تو بھارت کے لئے مستقل نشست کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ امریکہ کی حمایت پر 12 نومبر 2010ء کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں مذمت کی متفقہ قراردادیں منظور کی گئیں جن میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیرنے والے بھارت کا راستہ روکا جائے۔ 
کچھ ماہرین کا نقطہ نظر ہے کہ امریکی حمایت کے باوجود بھارت کا سلامتی کونسل کا رکن بننا آسان نہیں۔ مستقل رکنیت کے لئے جنرل اسمبلی کے ارکان کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت پڑے گی۔ نئے ممبر کے لئے قواعد و ضوابط بھی طے کرنا ہوں گے۔ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک میں سے پاکستان کے سرگرم ہونے پر چین بھارت کے راستے کا بھاری پتھر ثابت ہو سکتا ہے۔ اب تک سامنے آنے والے مؤقف کے مطابق چین بھارت کی مخالفت نہیں کرنا چاہتا۔ روس، فرانس اور برطانیہ کا شمار بھارت کے دوستوں میں ہوتا ہے۔ ایسے میں بھارت کے لئے مستقل نشست کا حصول مشکل نہیں۔ 1996ء میں بھارت سفارتکاری کے میدان کہاں تھا کہ اسے عارضی نشست کے لئے چاپان کے مقابلے میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا اور آج کی سفارتکاری کا اندازہ کیجئے کہ اس کے سب سے بڑے دشمن پاکستان نے بھی اس کی حمایت میں ووٹ دیدیا۔ 
پاکستان اپنے مجموعی بجٹ کا بہت بڑا حصہ ڈیفنس کے لئے مختص کرتا ہے۔ یہ شوق سے نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کو جس دشمن کا سامنا ہے وہ ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کا ڈھیر لگائے چلا جا رہا ہے اس کا ہدف صرف پاکستان ہے۔ پاکستان کو مجبوراً دفاعی تیاریوں پر کثیر رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ گو پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں دفاعی سازو سامان کئی گنا کم ہے اس کے باوجود پاکستان جب بھی کسی ملک سے دفاعی معاہدے کرتا ہے تو بھارت اس پر واویلا ضرور کرتا ہے۔ بھارت کے واویلے اور شور شرابے کے باوجود ہمیں اپنے دفاعی معاملات میں چوکس، بھارت کی دفاعی تیاریوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ چین نے پاکستان کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا، اس کی دوستی بھی لازوال ہے لیکن اس کے باوجود چین اسلامی دنیا کا نمائندہ نہیں۔ بھارت اگر دنیا میں واحد ہندو اکثریتی آبادی کا ملک ہو کر مستقل نشست کا امیداو اور خواستگار ہے تو 57 اسلامی ممالک کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کیوں پیچھے ہے ۔۔۔ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ پاکستان مستقل نشست کا امیدوار نہیں۔ وزیر خارجہ نے یہ بیان پاکستان کی ضرورت اور مفادات کے برعکس امریکہ کی خوشامد میں دیا۔ ان کو شاید کسی نے وزیراعظم بننے کی تھپکی دے رکھی ہے۔ 12نومبر 2010ء کو قومی اسمبلی میں بھارت کی حمایت میں اوباما کے بیان کے خلاف قرارداد شاہ محمود قریشی نے تیار کی، پیش کرنے کا وقت آیا تو شہناز وزیر علی کو قرارداد تھما کر کھسک گئے۔ ووٹنگ کے دوران شاہ صاحب ایوان میں موجود نہیں تھے۔ بابر غوری نے وزیراعظم سے ان کے وزیر خارجہ کی عدم موجودگی پر استفسار کیا تو گیلانی صاحب اِدھر اُدھر دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وہ شاید ہلیری کو فون کرنے گئے تھے کہ دیکھئے میں نے امریکہ کی مذمت کی قرارداد میں ووٹ نہیں دیا۔ وزیر خارجہ کے امریکی مذمت کی قرارداد کے موقع پر ایوان سے غائب ہونا اور آج سلامتی کونسل کی مستقل نشست کی امیدواری سے لاتعلقی کا اظہار بھارت کو مستقل نشست کے حصول کے لئے واک اوور ہے۔ آج نہ صرف بھارت کا راستہ روکنے بلکہ مستقل نشست کے حصول کے لئے پاکستان کو بھی کھل کر میدان میں آنا چاہئے۔ لیکن بے حس، بے ضمیر اور خود غرض حکمرانوں اور سفارتکاروں کی موجودگی میں یہ ممکن ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے کردار کے شخص کو پاکستان کا وزیر خارجہ رہنا چاہیے؟

No comments:

Post a Comment