پیر ، 27 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
جئے بھٹو اور زندہ ہے بی بی زندہ ہے، کے نعرے لگاتے، ماتم کرتے، آنسو بہاتے اکثر قافلے نوڈیرو پہنچ گئے، کچھ آج پہنچیں گے۔ بہت سے لوگوں کو بھٹو خاندان سے محبت اور اس خاندان کے شہیدوں سے عقیدت ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مزاروں پر محبتوں اور عقیدتوں کے پھول نچھاور کریں گے۔ صدر، وزیراعظم، وزیر، مشیر، پارٹی عہدیدار‘ کارکن اور عام آدمی وہاں موجود ہیں۔ پنڈال سجے گا، جلسہ ہو گا، جذباتی نعرے لگیں گے۔ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب اور گرفتار کرنے کے دعوے ہونگے۔ پھر 2011ء بھی اسی طرح گزر جائے گا۔ گزشتہ تین برسوں کی طرح۔ یہ لوگ جس اہتمام اور دل و جان سے محترمہ کی برسی مناتے ہیں۔ اس سے آدھی بھی توجہ محترمہ کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے پر دی ہوتی اور کوشش کی ہوتی تو یقیناً آج قاتل قوم کے سامنے ہوتے۔ صدر صاحب نے تو ایک موقع پر فرما دیا تھا کہ وہ اپنی زوجہ محترمہ اور مرحومہ کے قاتلوں کو جانتے ہیں۔ آج فرمایا ہے کہ ہماری جنگ بے نظیر کے قاتلوں سے جاری ہے۔ نہ جانے کیا مصلحت ہے کہ صدر صاحب قاتلوں کو جانتے ہیں ان سے جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ ان کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ پہلے سکاٹ لینڈ یارڈ پھر اقوام متحدہ سے تحقیقات پر کروڑوں ڈالر خرچ کر ڈالے۔ اب مقامی سطح پر تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس میں ردوبدل بھی ہو رہا ہے۔ یقین رکھئے یہ ٹیم بھی وہی نتیجہ دے گی جو سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی ٹیموں نے دیا تھا۔ صفر جمع صفر برابر صفر۔ خالد ایچ لودھی نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ مشرف اور بعض حکومتی عہدیداروں کو تفتیش میں شامل کئے بغیر بینظیر کے قاتلوں کو پکڑنا ممکن نہیں۔ جب بینظیر بھٹو قتل کے ملزم حکومت اور تحقیقاتی و تفتیشی ٹیموں کی تشکیل کی پوزیشن میں ہونگے تو تحقیقات کے حتمی نتیجے کا اندازہ کرنے کے لئے عقل سقراط اور دانش افلاطون کی ضرورت نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی قائدین کو بھٹو کے نظریات‘ فکر و فلسفے سے زیادہ ان کی وراثت یعنی جائیداد سے دلچسپی ہے۔ محترمہ کے قتل کے بعد جناب زرداری صاحب نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا تھا۔ ق لیگ مشرف نے بنوائی، اسے آباد کیا اور شاد کیا۔ محترمہ کے قتل کے روز بھی ق لیگ پر صدر مشرف کا سایہ تھا۔ محترمہ کے شوہر نامدار صدر مشرف کے ساتھ اس وقت تک شیر و شکر رہے جب تک اپنے صدر بننے کا یقین نہیں ہو گیا۔
بلاول بھٹو اپنی والدہ کے قتل کے حوالے سے مشرف کی طرف واضح اشارہ کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ پرویز مشرف ہی بینظیر کے قاتل ہیں، اعتزاز احسن اور دیگر قائدین مشرف کو شاملِ تفتیش کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ زرداری صاحب مردِ مفاہمت ہیں یہ مفاہمت کی معراج ہے کہ اپنی اہلیہ کے قتل کے ملزم کو سلیوٹ کر کے ایوانِ صدر سے رخصت کیا گیا اور بیرونِ ملک جانے کی اجازت بھی دیدی۔ اب ایک اور مفاہمت اعجازالحق سے بھی کر لیں۔ اعجازالحق کا تو بھٹو کی پھانسی سے براہِ راست تعلق بھی نہیں پھانسی لگنے اور لگانے والوں نے اوپر ایک دوسرے سے نمٹ لیا ہو گا۔ شاید اعجازالحق ہی ایک ہیں جو زرداری صاحب کی مفاہمت کی لپیٹ سے باہر ہیں۔
No comments:
Post a Comment