About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, December 30, 2010

قومی وقار! شکایت کس سے کریں؟

 جمعرات ، 30 دسمبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
ہمارے کچھ دانشور پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود حجابات ہٹا دینا اور سرحد کی صورت میں کھنچی لکیر مٹا دینا چاہتے ہیں۔ انتہا پسند بنیے کی تو خواہش ہی اکھنڈ بھارت ہے۔ وہ تو ملکوں کے نام کا تکلف بھی برطرف کرنے کیلئے بے چین ہے گریٹر انڈیا اس کی تمنا اور آرزو ہے۔ اس کیلئے جال بنے جاتے منصوبے تشکیل دئیے جاتے اور سازشیں پروان چڑھائی جاتی ہیں۔ جب ہمارے سیاسی قائدین ویزے کی پابندی کے خاتمے کا نعرہ مدہوشیانہ لگاتے ہیں تو عظیم تر ہندوستان کا خواب دیکھنے والے بنیئے کو اپنی امید برآتی محسوس ہوتی ہیں۔ اس کے دل و دماغ میں شوخ و چنچل ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔ 
الگ ملک ایک ہو جانے چاہئیں لیکن وہ پاکستان اور بھارت نہیں‘ بنگلہ دیش اور پاکستان کو ایک ہونا چاہئے۔ ان کے ایک ہونے کا جواز بھی ہے۔ ان کی تہذیب ایک‘ ثقافت ایک‘ دین ایک‘ ایمان ایک‘ نبی ایک قرآن ایک اور خدا ایک ہے اور دشمن بھی ایک‘کل تک یہ خود بھی ایک تھے۔ اس کیلئے ایک انقلابی لیڈر کی ضرورت ہے۔ دو قومی نظریے کے پاسبان کی ضرورت ہے۔ قائد اور اقبال کے جانشیں کی ضرورت ہے کرنل قذافی کے سے جذبے کی ضرورت ہے جس نے لیبیا اور مصر کے ادغام اور انضمام کی تجویز پیش کی جسے انور السادات نے ٹھکرا دیا۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی رحلت کے بعد ہمیں دونوں حصوں سے قائد ایسا ایک بھی رہنما و پیشوا نہ ملا۔ مجیب یحییٰ جیسے ملک توڑ اور انور السادات جیسے اتحاد کے دشمن قدم قدم اور ہر موڑ پر ملے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین بدگمانیاں اور نفرتیں محبتوں میں بدل سکتی ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان کے باسیوں کے دل میں اگر کدورت اور نفرت ہے تو وہ اس سطح کی نہیں جو قریش مکہ کی دین اسلام کے پیروکاروں میں تھی۔ پھر دنیا نے ان کو شیر و شکر اور ایک دوسرے پر جاں نچھاور کرتے دیکھا۔ ایسی یکتائی اور یکجائی قیامت تک‘ پاکستان اور بھارت کے مابین قطعاً ممکن نہیں۔ اسلام پوری انسانیت سے محبت اور مساوات کا درس دیتا ہے لیکن مسلمان‘ ہندو سے نفرت‘ اس کی نفرت کے جواب میں کرتا ہے۔ وہ مسلمان کے ہاتھ سے چھوئی ہوئی چیز کو بھی بھرشٹ سمجھتا ہے۔ گو آج کچھ جدت پسند ہندو مسلمان سے ہاتھ ملا لینے کو حرج نہیں سمجھتے لیکن ان کا ہندو معاشرہ اور سیاست میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مجموعی طور پر بھارت کے آئینی طور پر سیکولر ہونے کے باوجود اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سکھوں نے اندرا گاندھی ماری تو معتوب ٹھہرے۔ مسلمان تو نہ صرف مکھی تک کو مارنے کے جرم دار نہیں بلکہ یہ تو اپنے مدرسوں اور مساجد میں گاندھی اور اس کے چیلوں کو بھی بلا لیتے ہیں۔ اس کے باوجود انتہا پسند ہندو دل میں مسلمانوں کی ہزار سالہ غلامی کے انتقام کا جذبہ الاؤ دہکائے رکھتا ہے۔ ہندو کی بدباطنی‘ خباثت اور کینہ پروری کا احساس ہمارے کچھ دانشوروں کو نہیں ہو رہا۔ یہ اس کے ساتھ دوستی کے بے پایاں جذبات رکھتے ہیں۔ بھارت میں کچھ مسلمان خاندان شہرت‘ عزت اور دولت کی معراج پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی اصلیت پر نگاہ دوڑائیں تو کسی کی ماں ہندو ہے کسی کا باپ‘ اگر ماں باپ مسلمان ہیں تو کسی نے خود نکاح ہندو خاندان میں کر رکھا ہے کسی نے بہن اور بیٹی ہندوؤں میں بیاہ رکھی ہے۔
بھارت سے دوستی کے خواستگار نہ جانے کیوں تمام قانونی تقاضے پورے کرکے بھارت جانے والوں پر تشدد اور تشدد سے مرنے والوں کو بھول جاتے ہیں۔ جن کو ہماری اکثریت کھیل اور شوبز کے میدان میں ہیرو سمجھتی ہے ان کی بھارت میں تذلیل ہوتی ہے۔ تازہ ترین واقعہ عدنان سمیع کا جسے اس کی کروڑوں کی جائیداد چھین کر دھتکار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے فنکار اور کھلاڑی بڑی بے شرمی سے نوٹ بنانے اور پیسہ کمانے کیلئے بھارت کا رخ کرتے ہیں۔ بھارت میں ایک بھی پاکستانی ٹی وی چینل دکھانے کی اجازت نہیں۔ ہمارے ہاں پاکستانی چینلز سے زیادہ سپریم کورٹ کی طرف سے پابندی کے باوجود انڈین فحش چینل دکھائے جاتے ہیں۔ سینماؤں میں بھارتی فلمیں چل رہی ہیں۔ ہمارے پڑوسی سینما میں بھی سکھ فلمی بورڈ پر دندنا رہے ہیں۔ پاکستانی چینلز بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بھارت کے اشتراک سے بنے پروگرام دکھا رہے ہیں۔ ان کی سکرینوں پر انکی فلمیں چل رہی ہیں۔پرنٹ میڈیا میں پاکستانی فنکاروں سے زیادہ دشمن ملک کے فنکاروں کو کوریج دی جاتی ہے۔ کیا یہ سب قومی وقار کے منافی نہیں؟ ہمارے حکمران کسی بھی جدت پسند اور آزاد خیال حلقے سے پیچھے نہیں۔ آخر شکایت کریں تو کس سے کریں؟

No comments:

Post a Comment