اتوار ، 20 مئی ، 2012
امن کی لاشیں
فضل حسین اعوان
وہ بدنصیب باپ جس کے نصیب میں ارضِ پاک پر سجدہ ریز ہونا نہیں لکھا تھا اپنے لختِ جگر کا کٹا سر اُس کے دھڑ سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا پورا خاندان اس کی آنکھوں کے سامنا کٹا، بیٹے کے قتل پر تنہا رہ گیا تو شاید پاگل ہو گیا تھا۔ اتنے میں خودسر قاتلوں کا قافلہ نمودار ہوا تو ہزار لاشوں کے ڈھیر میں ایک کا مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ اب ایک دوسرے کے قریب دو سر اور دو دھڑ پڑے تھے۔ باپ بیٹے کے دھڑ اور سر۔ بیٹے کی آنکھیں باپ نے بند کر دی تھیں باپ کی کھلی آنکھیں آسمان کی طرف بارگاہِ الٰہ میں فریاد کناں تھیں کہ الٰہی میرا قصور کیا تھا؟ --- بچے کی عمر کیا تھی؟ یہ بحث لاحاصل ہے۔ کسی کے باپ اور اس کی ماں سے پوچھیں بیٹا کس عمر میں پیارا لگتا ہے؟ بچپن میں لڑکپن میں یا جوانی میں؟
ایک بزرگ بتاتے ہیں کہ ان کے سکھوں کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ اُجاڑے پڑے تو کرتا دھرتا سکھوں نے نمائندہ مسلمانوں کو بلایا کہ آپ کی ہجرت کے لئے آسانی کا لائحہ عمل طے کر لیں۔ 35 عمائدین سکھوں کے ساتھ میٹنگ کے لئے چلے گئے، ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ ان مقتولین کے خاندانوں پر بھی شبِ خون مارا گیا۔ ان میں سے کسی خاندان کا ایک فرد آگ کا قلزم عبور کر کے پاک سرزمین پر پہنچا یا دو پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ آزادی کی دہلیز پر جو قتل و غارت ہوئی وہ اس شعر کی زندہ تعبیر تھی ع
کہ خولِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
سرزمین ہند لاشوں کا میدان بن چکا تھا۔ ندی نالے اور دریا تک لاشوں سے اٹے ہوئے تھے۔ کنووں میں ظالموں نے زخمیوں کو اُٹھا پھینکا، بعض عزت مآب خواتین آبرو بچانے کے لئے کود گئیں۔ ایسے ایسے مظالم ہوئے جن کو بیان کرنے والا بھی کوئی زندہ نہ بچا۔ بہرحال یہ حقیقت تھی کہ میدان خون سے رنگین اور لاشوں سے اٹے تھے۔ بچوں کی لاشیں، جوانوں کی لاشیں بوڑھوں کی، عورتوں کی لاشیں۔ کسی لاش کی عبا اُدھڑی اور کسی کی قبا اُتری ہوئی تھی۔ کسی کا آنچل چہرے سے سرکا ہوا تو کسی کی ردا سر سے اُتری ہوتی تھی۔ کسی کا دامن تار تار تھا تو کسی کے سینے سے خنجر پار تھا زندہ انسانوں کو لاشوں میں بدلنے والے ان پر بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ اکثر ایسی لاشیں تھیں جن پر ماتم کرنے والے بھی قریب ہی لاش بنے پڑے تھے۔ پاکستان میں آج بہت سے لوگ ہیں جو ان لاشوں پر آنسو بہاتے ہیں۔ مرنے والے کسی کے ماں باپ تھے، کسی کے بہن بھائی اور مامے چاچے تھے اب وہ شاید دنیا سے رخصت ہو گئے یا ضعیف العمر ہوں گے البتہ ان کی نسلیں اپنے آباءکا غم یقیناً قیامت تک نہ بھلا پائیں گی اور جس نے یہ درد دیا، یہ زخم دیا، روح تک کو گھائل کر دیا کیا ان کو بھلا دیں گے یا معاف کر دیں گے؟ ہم کچھ نہیں کہتے آزادی کے دوران جو ستم ڈھائے گئے اس قسم کی کیفیت یا اس سے کئی گنا کم اذیت سے گزرنے والے بتائیں وہ اذیت سے دوچار کرنے والوں کو معاف کر سکتے ہیں؟
تقسیم کی دہلیز پر جو کچھ ہوا وہ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں دہرایا جا رہا ہے، لاشیں گر رہی ہیں، حوا کی بیٹیوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے، اس کے باوجود بھی ایک طبقہ اُس وقت کے آج کے ستم گروں کے ساتھ دوستی کا خواہشمند ہے بلکہ خود تو دوستی نبھا بھی رہا پوری قوم کو بھی دشمن کے ساتھ گلے ملنے اور ایک دستر خوان پر شیر و شکر ہونے کا درس دے رہا ہے۔
روشن مستقل اور اپنی زندگی اسلامی اقدار کے مطابق بسر کرنے کی خواہش لئے آگ اور خون کا دریا عبور کرتے ہوئے جو تاریک راہوں میں مارے گئے تھے اُن کے وارث اور لواحقین ہم سب پاکستانی ہیں، جو ان شہدا کے خون سے کسی صورت بے وفائی نہیں کر سکتے۔ آج جن لوگوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات و دوستی کا واویلا مچایا ہوا اور ساتھ ہی تنازعات پُرامن طریقے سے حل کرنے کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے۔ ان کی تاریخ اور خاندانی پس منظر کا جائزہ لیجئے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جن کے خاندان کا آزادی کے دوران خون کا ایک قطرہ بھی بہا ہو۔ یہی امن کی آشا کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں، یہی بڑھ چڑھ کر بھارت کے ساتھ تجارت، دوستی اور اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی تقریریں اور باتیں کرتے ہیں۔ خدا کے لئے مسلمان نہ سہی انسان تو بنئے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کا خون ہو رہا ہے، انسانیت سسک رہی ہے اس کا خیال کیجئے۔ کم از کم آزادی کشمیر کو ہی بھارت کے ساتھ تعلقات، تجارت اور دوستی سے مشروط کر دیجئے۔ اس سب کے باوجو بھی دشمن کے ساتھ تعلقات و تجارت کی خواہش ہے تو سمجھ لیجئے آپ بے گور و کفن لاشوں پر، ما ¶ں بہنوں کی عصمتوں پر بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔ گویا آپ کی کاوش امن کے لئے نہیں امن کی لاشیں گرانے اور اٹھانے کے لئے ہے۔
No comments:
Post a Comment