About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, May 20, 2012

ممتا کے جذبات ۔ اور طاقتور ترین ماں



شفق ۔۔۔ فضل حسین اعوان 
ممتا کے جذبات ۔ اور طاقتور ترین ماں
ماں، بہن، بیٹی‘ بیوی الغرض عورت ہر روپ میں مرقع احترام‘ منبع الفت و محبت اور پیکر حُسن و جمال ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا 
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ 
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں 
کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس مقولے سے کلی اتفاق کریں یا جزوی اختلاف، تاریخ کے مطالعہ سے اس مقولے کے حق میں کافی دلائل تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہو۔ البتہ عورت کی حیثیت اور اہمیت مسلمہ ہے۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ الزہرہؓ کا نامِ نامی اسمِ گرامی سُن اور پڑھ کر سر احترام سے تسلیم خم اس لئے ہو جاتا ہے کہ انہوں نے کٹھن حالات میں زندگی گزاری اور اپنی اولاد کی اس نہج پر تربیت کی کہ ضرورت پڑنے پر دین کی خاطر کربلا میں باطل کے سامنے سر جھکانے کے بجائے قلم کروا لیا۔ عظیم ما ¶ں کا ذکر آئے گا تو حضرت آمنہ سرِفہرست ہوں گی جنہوں نے وجہ تخلیقِ کائنات کو جنم دیا۔ حضرت حواؑ تو ہم سب کی ماں ہیں۔ حضرت مریمؑ کی ممتا کی گواہی قرآن حکیم نے دی ہے۔ ملکہ سبا کے تذکرے کے بغیر عظیم عورتوں کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ مہر النسا عرف نورجہاں جہانگیر کی دل کی دھڑکن تھی وہ اس کی قربت سے فرقت کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اسی مہر النساءکے کہنے پر جہانگیر نے مجدد الف ثانیؒ کو قید کیا تھا۔ امورِ سلطنت کی انجام دہی کے لئے ملکہ کا ہاتھ بادشاہ کی پُشت پر ہوتا تھا۔ انسانی کھوپڑیوں سے محل تعمیر کرنے والا دنیا کا ظالم ترین انسان ہلاکو خان اپنی ملکہ زرتاج کے پاس جاتا تو تلوار اُلٹی کر کے یوں جھک جاتا جیسے وہ اس کے حضور پیش ہو رہا ہو۔ ملکہ سبا کا بھی بڑا نام ہے۔ اس کی آدھی دنیا میں بادشاہت تھی۔ حضرت سلیمانؑ نے ملکہ سبا کو جھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 
آج نمبر ون، مقبول ترین، مضبوط ترین اور نہ جانے حسین ترین سمیت کیا کیا ترین قرار دینے کی رسم چل نکلی ہے۔ گزشتہ سال کے وسط میں جرمنی کی چانسلر انجلینا مرکل کو دنیا کی بااثر ترین خاتون قرار دیا گیا۔ ہلیری کلنٹن دوسرے نمبر پر رہیں۔ گزشتہ روز ما ¶ں کے عالمی دن کے موقع پر ایک عالمی جریدے فوربز نے طاقتور ما ¶ں کی فہرست جاری کی ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو سب سے بااثر اور طاقتور ماں قرار دیا ہے۔ ہلیری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں اور عمل سے دنیا کو بدل دینے کی طاقت رکھتی ہیں۔ صرف اپنے شوہر کو محبوبہ سے دور رہنے کا حکم نہیں دے سکیں! 
ممتا کے جذبات کیا صرف اپنی اولاد کے لئے ہی ہوتے ہیں؟ انسانیت شاید ممتا کے احساسات اور جذبات کا اوتار ہے۔ دین اسلام میں تو مسلمان کو اخوت کے رشتے میں اس طرح پرو دیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کی تکلیف پر دوسرا اُسی طرح بے چینی محسوس کرتا ہے جس طرح جسم کے ایک حصے میں درد سے پورا جسم بے قرار ہو جاتا ہے۔ عیسائیت میں کہا گیا ہے اگر ایک گال پر کوئی تھپڑ رسید کرے تو دوسرا بھی اس کے آگے کر دو۔ یہ ظلم روکنے کا شاید ایک طریقہ ہے کیونکہ ایسا بے شرم اور خودسر تو کوئی بھی نہیں ہوتا تو ایک تھپڑ مارے سامنے سے جواب نہ آئے تو وہ مزید مارکٹائی شروع کر دے۔ اسلام میں جارحیت کی کبھی تعلیم نہیں دی گئی البتہ دفاع کا بھرپور حق اور اختیار ضرور دیا گیا ہے۔ 
اسلامی ممالک کی تاراجی کا سلسلہ بُش دور میں شروع ہوا۔ افغانستان پر یلغار کرتے وقت بُش نے اسے صلیبی جنگ قرار دیا ، پھر عراق پر دوسری مرتبہ چڑھائی کی۔ لیبیا کی بات نہ بھی کریں صرف عراق اور افغانستان میں 20 لاکھ سے زائد انسان امریکہ کی نامُراد جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں ان میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی ماں کے دل کا چین تھا۔ پاکستان میں 45 ہزار انسان اس کے باوجود بھی مارے گئے کہ پاکستان کا اس جنگ سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ افغانستان‘ عراق اور پاکستان میں مارے جانے والے معصوم بچوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، ان کی رگوں میں بھی ہلیری کی اولاد کی طرح خون گردش کرتا ہے۔ ہلیری کی ممتا ان بچوں کے بموں سے اُڑتے چیتھڑے اور خون سے لتھڑے لاشے دیکھ کر کیوں نہیں جاگتی؟ 
ممتا کا جذبہ صرف خواتین ہی نہیں، جانوروں میں بھی ہوتا ہے جن میں شیر اور بھیڑیے جیسے درندے بھی شامل ہیں۔ البتہ استثنیات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہیں۔ مچھلی اور سانپ اپنے ہی بچوں کو کھا جاتے ہیں۔ بلی کے پا ¶ں کو تپش محسوس ہو تو اپنے بچوں کے اوپر پا ¶ں رکھ لیتی ہے۔ 
امریکہ کی طرف سے انسانوں اور انسانیت کے قتل کا سلسلہ طول پکڑ رہا ہے۔ مدر ڈے پر ہلیری جی کو طاقتور ترین ماں کا اعزاز ملنے کے ناتے امید کی جاتی ہے کہ وہ سانپ اور مچھلی جیسی نہیں، انسانوں کی ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکہ کو مزید ما ¶ں سے ان کے لختِ جگر مارنے کی پالیسی سے باز رکھنے کی کوشش کریں گی۔ اگر وہ ایسا کر گزرتی ہیں تو یقیناً ان کا نام انسانیت کی خدمت کرنے والی عظیم خواتین میں شامل ہو جائے گا۔ 




No comments:

Post a Comment