About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, May 31, 2012

شہدائے گیاری سیکٹر


 جمعرات ، 31 مئی ، 2012

شہدائے گیاری سیکٹر
فضل حسین اعوان ـ
پاک فوج نے گیاری سیکٹر سیاچن کے محصورین برف کو شہید قرار دیدیا۔ یہ فیصلہ بڑے کرب و درد اور فخر کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ کیا گیا۔ فوج کے مطابق سانحہ کی نوعیت، شدت اور حالات کے باعث وہاں کسی فوجی کے زندہ ہونے کا امکان نہیں۔ فوج نے ان محصورین برف کو تمام مکتبہ فکر کے علماءکی مشاورت کے بعد شہید قرار دیا۔ گیاری سیکٹر میں 7 اپریل 2012ءکو 139 فوجیوں پر ایک مربع کلو میٹر کا 80 فٹ اونچا تودا گر گیا تھا۔ اب فوج نے بتایا ہے کہ دبنے والوں کی تعداد 140 تھی۔ پوری دنیا کی ماہر ٹیموں کی مدد و معاونت سے پاک فوج کے سپوتوں کو برآمد و بازیاب کرنے کی اپنی سی تگ و دو کی۔ سانحہ کو دو ماہ ہونے کو ہیں کہ صرف تین شہدا کی نعشیں مل سکی ہیں تاہم فوج آخری سپاہی کو بازیاب کرانے تک امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہے۔ 
سیاچن برف سے ڈھکی چوٹیوں اور یخ بستہ وادیوں کی روح پرور اور پاکیزہ سرزمین ہے جو بھارت کی جارحیت اور توسیع پسندانہ مذموم عزائم کے باعث گدلا اور گدرا رہی ہے، اس کا ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ جنرل کیانی نے سیاچن گلیشیرز کو دریاوں کی خوراک قرار دیا ہے جو بھارت کی خودسری و سرکشی کے باعث برباد ہو رہی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے اس علاقے پر اپریل 1984ءمیں قبضہ کیا اس کے بعد سے وطن عزیز کے چپے چپے کی حفاظت کا عزم لئے ہمارے 4 ہزار فوجی اپنی جانیں نچھاور کر چکے ہیں۔ کچھ مدمقابل فوج کے ساتھ مقابلے میں جان جانِ آفریں کے سپرد کر گئے اکثر موسم کی شدت کی نذر ہو گئے۔ بہرحال سیاچن میں ہر فوجی کی شہادت کا ذمہ دار بھارت ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر 10 لاکھ مسلمانوں کے خون کا ذمہ دار کون ہے؟ وہی بھارت جس کے پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ناپاک منصوبوں میں کبھی کجی و کمی نہیں ہوئی، مقبوضہ کشمیر میں اس کی ساڑھے سات لاکھ سفاک سپاہ لاکھوں کشمیریوں کو خاک اور خون میں ملا چکی ہے۔ معصوم بچوں اور خواتین سمیت کوئی بھی کشمیری بھارتی فوج کی ظالمانہ و جابرانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں۔ اقوام متحدہ کو بھی اعتراف ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ وادی میں ہوتی ہیں اور پھر اس دشمن اسلام اور پاکستان کے علاقہ سیاچن پر قبضہ اور شاہراہ ریشم تک پہنچنے کی جستجو --- پاکستان کی طرف سے بروقت اقدامات نہ کئے جاتے تو بھارتی افواج کے ناپاک قدم سیاچن میں ہر برفیلی چوٹی تک پہنچ چکے ہوتے۔ برف پوش پہاڑوں اور یخ بستہ، پُرسکون و خاموش وادیوں کو محاذ جنگ میں بدل کر بارود کی بُو بھارت نے پھیلائی۔ قبل ازیں یہی دشمن سرکریک، جوناگڑھ، مناوادر اور حیدر آباد دکن کو اپنے مقبوضات میں شامل کر چکا تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی ناقابل فراموش ہزیمت بھی اسی کی خباثت ہے۔ بلوچستان اور فاٹا میں اس کے افغانستان میں موجود قونصل خانے بدامنی اور شورش کی آگ بھڑکائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ہر حصے میں اس کی دہشت گردی، تخریب کاری کے زندہ ثبوت کشمیر سنگھ اور سربجیت سنگھ جیسے ہزاروں ’را‘ کے تربیت یافتہ غنڈے ہیں۔ ازلی و ابدی دشمن کے پاکستان دشمنی پر مبنی منصوبے، سازشیں اور اقدامات کے پیش نظر ہر محب وطن پاکستانی کے روئیں روئیں سے انتقام ، انتقام اور انتقام کی صدا آتی ہے۔ بدقسمتی سے جن کے ہاتھ میں قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار ہے وہ اور ان کے کاسہ لیس اسی دشمن سے انعام، انعام اور انعام کے طلبگار و خواستگار ہیں۔ اسی دشمن سے تجارت جاری ہے، تعلقات کو مزید بلندیوں پر لے جایا جا رہا ہے۔ دوستی اور پیار کی خواہش، والہانہ پن اور وارفتگی کی حسرت انتہاوں کو چُھو رہی ہے۔ ہمارے ہی خون سے کشید کی ہوئی بجلی مہنگے داموں خریدنے کی بے قراری ہے۔ اب بھارت کی پٹرولیم مصنوعات پسند آ گئی ہیں، بھارت خود ایسی مصنوعات کا محتاج ہے پاکستان کو کیا دے گا۔ بلور بھارت کو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ساتھ کنفیڈریشن میں پرونے کے متمنی ہیں، اس میں اکھنڈ بھارت کی تکمیل کی آرزو چھپی محسوس ہوتی ہے۔ 
بھارت کے ساتھ سرنگوں کر کے معاہدے، تجارت، تعلقات، دوستی اور اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے اقدامات! کہاں گیا ہمارا دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے کا عزم، کہاں گیا ہمارا قومی وقار اور تفاخر؟ کیا یہ سب تحریک آزادی، کشمیر، پاکستان بھارت جنگوں اور سب سے بڑھ کر سیاچن گیاری سیکٹر کے شہدا کے خون کے ساتھ غداری نہیں؟ اگر غداری ہے تو غدار کون ہے؟ کیا قوم یا فوج کا ہاتھ ان غداروں کے گریبانوں تک پہنچے گا؟ پہنچے گا تو کب؟ جب بچنے اور بچانے کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا؟ 
جب تک برف تلے دبنے والوں کی زندگی کی موہوم سی بھی امید تھی‘ ہم نے انہیں غازی سمجھا اور شہید قرار نہ دیا۔ اب جبکہ گیاری کے محصورین برف کو شہید قرار دیدیا گیا ہے۔ ان کے لئے قوم کو کسی جمعہ کے روز یومِ دعا منانا چاہئے جس کا اعلان حکومت فوج کے مشورے سے کرے۔ اس دن کو کوئی یومِ سوگ یا یومِ افسوس کہہ لے۔


No comments:

Post a Comment