About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, June 3, 2012

ووٹ کے ذریعے انقلاب


اتوار ، 03 جون ، 2012

ووٹ کے ذریعے انقلاب
فضل حسین اعوان ـ 
شہر کے پررونق بازاروں‘ ہوٹلوں‘ دکانوں اور تھڑوں سے لے کر دور دراز دیہات کے ڈیروں اور چوپالوں تک میں سیاست پر بحث ہوتی ہے۔ گزشتہ انتخابات تک تین پارٹیاں پی پی پی‘ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق زیر بحث رہتی تھیں۔ آج ق لیگ کی جگہ عمران خان کی تحریک انصاف نے لے لی ہے۔ علاقائی طور پر اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ پہلے کی طرح آج بھی جانی پہچانی جاتی ہیں۔ متحدہ کے ووٹ بنک میں خاصی کمی بیشی کا امکان نہیں البتہ دینی جماعتوں کا مجوزہ اتحاد اور عمران خان کی پذیرائی خیبر پی کے میں اے این پی کیلئے خطرے کی گھنٹی ضرور ہے۔ بلوچستان اور پنجاب کے مرتدین سیاست پرانی پارٹی پوزیشن کو متاثر تو ضرور کرینگے لیکن اس سے کسی پارٹی کی مجموعی کیمیت پر زیادہ اثر نہیں پڑیگا۔ خصوصی طور پر کنورٹ ہو کر جس پارٹی میں گئے ہیں‘ اس کو بامِ عروج تک پہنچانے کا یہ حضرات سبب قطعاً نہیں بن سکتے۔ تاہم یہ بات بھی یاد رکھ لیں کہ قطرے قطرے سے دریا اور تنکے تنکے سے آشیاں بنتا ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ آشیاں صاف تنکوں اور دریا شفاف قطروں سے بنتا ہے۔ 
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ووٹر تھوڑی بہت سی پلس مائنس کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ الیکشن میں بڑا کردار اس ووٹر کا رہا ہے جو کسی بھی پارٹی کی کارکردگی کو دیکھ کر ووٹ دیتا ہے۔ اسکی رائے کسی بھی پارٹی کی لیڈر شپ کا مثبت اور منفی اثر لے سکتی ہے۔ ہمدردی کا ووٹ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں الیکشن انجینئرڈ ہوں‘ وہاں مذکورہ عوامل کی کارفرمائی کوئی معانی نہیں رکھتی۔
آئندہ انتخابات میں عمران خان کی فعالیت مسلم لیگ ن سے زیادہ پیپلز پارٹی پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ لوگ پنجاب حکومت کی پالیسیوں سے بھی مطمئن نہیں مگر مرکزی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر عوامی حلقے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ عمران خان کی جو عوامی پذیرائی نظر آتی ہے‘ اس کا بڑا سبب مرکزی حکومت کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ کرپشن بجلی گیس کی قلت اور ساتھ ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث معیشت کی بدحالی‘ کاروبار ٹھپ ہونے سے بیروزگاری اور ناقابل برداشت مہنگائی جیسے عوامی ایشوز کو لے کر عمران خان اٹھے ہیں۔ مسلم لیگ ن بھی ان ایشوز پر مرکزی حکومت کے لتے لے رہی ہے لیکن انکی پنجاب میں حکمرانی بھی مثالی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کیخلاف مظاہرے اور جلسے جلوس اپنے ووٹر کو ہی کھسکنے اور پھسلنے سے بچالیں تو بڑی بات ہے۔ جو لوگ (ن) لیگ کو چھوٹی برائی سمجھ کر قربت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اب وہ شاید کسی تیسری قوت کو دل کے قریب کر لیں۔ اسکے باوجود بھی پنجاب میں اس تیسری سیاسی قوت کی پذیرائی کا ن لیگ کی صحت پر اتنا فرق نہیں پڑیگا جتنا پاکستان پیپلز پارٹی کی عوام کش پالیسیوں سے اس کا نقصان ہو گا۔ نئے صوبے جنوبی پنجاب قیام کی علمبرداری سے پی پی پی نمبر ٹانک رہی تھی۔ ن لیگ نے پی پی کے نہلے پر دہلا پھینکتے ہوئے صوبہ جنوبی پنجاب کے ساتھ بہاولپور کی بحالی کی بھی پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور کرالی۔ اب دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے بڑھ کر ان صوبوں کے قیام کی قوالی کر رہی ہیں۔ چونکہ چنا تھوتھا ہے‘ اس لئے گھنا بج رہا ہے۔ بہرحال صوبوں کے قیام کی منافقت کسی ایک پارٹی کو برتری نہیں دلا سکتی۔ 
ن لیگ کی قیادت کو 2008ءکے انتخابات میں ایک وقت کی کمی اور دوسرے سکیورٹی کی معاملات کے باعث دوسرے صوبوں میں بھرپور انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ تیسرے یہ بائیکاٹ کے مخمصے میں بھی پھنسی رہی۔ اب نواز شریف کی دوسرے صوبوں پر بھی توجہ ہے‘ خصوصاً سندھ پر۔ ممتاز بھٹو اور ماروی میمن کی ن لیگ میں شمولیت سے سندھ میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی ایک بھی صوبائی اسمبلی کی سیٹ نہیں‘ مارچ میں سینٹ کے الیکشن میں ن لیگ کے امیدوار کو سات ووٹ ملے‘ آٹھواں بھی مل جاتا تو جیت مقدر بنتی۔ اس کا مطلب ہے کہ ن لیگ کو جیتنے اور سیٹوں میں اضافے کے دیگر گُر بھی آتے ہیں۔ ایسے گروں میں سے ایک پی پی کے ایم پی ایز پر استعمال ہوا جس سے یونیفیکیشن بلاک نے جنم لیا۔ عمران خان کے جیتنے والے نوآموز امیدوار مخالف پارٹی کے ایسے گروں اور حربوں سے کہاں تک بچیں گے؟ اس کا فیصلہ وقت کریگا۔ 
عمران خان کی جیت کیلئے بڑی توقع نوجوانوں سے ہے‘ بڑی عمر کے ووٹر بھی انہیں مسترد نہیں کر رہے۔ اگر ووٹنگ کی شرح ماضی کی طرح تیس چالیس اور 45 فیصد تک رہتی ہے تو سیٹوں کی تقسیم 2008ءکے انتخابات سے زیادہ مختلف نہیں ہو گی البتہ اگر وہ55 فیصد ووٹر جو گھروں سے نہیں نکلتے‘ وہ پولنگ سٹیشن تک لائے جا سکیں تو ایک انقلابی تبدیلی آسکتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عوام کس پارٹی سے مایوس اور کس سے مانوس ہیں۔ 
فرانس میں مسلمانوں کی تعداد 50 لاکھ ہے‘ جو نکولس سرکوزی کی شکست کا باعث بن گئے۔ سرکوزی کی نقاب‘ حجاب اور داڑھی کے حوالے سے اسلام دشمن پالیسیوں کے باعث مسلمان اس سے متنفر تھے۔ فرانس میں مسلمان بااثر کمیونٹی نے سرکوزی کی مخالفت میں مہم چلائی‘ نہ فرانکوئس ہالینڈ کی حمایت میں۔ مسلمان لیڈر شپ کا زور صرف اس بات پر رہا کہ مسلمان ووٹ ضرور کاسٹ کریں۔ پاکستان میں جس قسم کی گورننس ہے‘ اس سے تنگ شاید وہ ووٹر بھی گھروں سے نکل آئیں جو ہمیشہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ انکی پولنگ سٹیشن تک آمد یقینی بنالی جائے تو یقیناً ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ پرامن انقلاب۔ جس سیاسی پارٹی کو خوش گمانی ہے کہ اس کا منشور اور پالیسیاں عوامی مفاد میں ہیں‘ وہ اپنے لئے ووٹ مانگنے کے بجائے پورا زور لگا کر ان ووٹر کو پولنگ سٹیشن پر لے آئے جن کو مشرف اپنا خاموش ووٹ بنک قرار دیتے رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment