منگل ، 12 جون ، 2012
توانائی بحران کا حل ؟
فضل حسین اعوان
بجلی کے بحران نے آسیب کی طرح پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہُوا ہے۔ اسی بحران کے باعث نہ صرف بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنے کو تیار نہیں بلکہ 20 فیصد پاکستانی سرمایہ کار اپنا بزنس پاکستان سے سمیٹ چکے ہیں۔ ان میں اکثر بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بجلی کے ساتھ گیس کا بھی بحران ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چُھو رہی ہیں۔ گویا انرجی کے تینوں ذرائع ضرورت مندوں کی دسترس سے دور کر دئیے گئے ہیں۔ چاول کی فصل کی کاشت کا سیزن شروع ہے اس کے لئے وافر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مونجی ہوتی ہی کھڑے پانی میں ہے۔ پاکستان کے حصے کا ایک طرف پانی بھارت روک رہا ہے تو دوسری طرف پانی کی ٹیوب ویلوں سے دستیابی بھی بجلی کی قلت اور ڈیزل کی ناقابل برداشت قیمت کی وجہ سے ناممکنات میں شامل ہو چکی ہے۔ پاکستان کی معیشت امریکہ کی جنگ میں ہمارے حکمرانوں کی طرف سے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کے باعث ڈوبی‘ رہی سہی کسر انرجی کی کمی نے پوری کر دی۔ اس کے باوجود بھی زرعی شعبہ نے تمام تر مشکلات کے باوجود معیشت کو مکمل طور پر بکھرنے سے بچائے رکھا۔ گندم‘ چاول‘ گنا اور کپاس جیسی اہم فصلیں آج بھی قومی ضروریات سے بڑھ کر پیدا ہو رہی ہیں۔ صنعتوں کی طرح حکومت نے زرعی شعبہ کو نظرانداز کئے رکھا تو خدانخواستہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی موجودہ صلاحیت بھی ملکی ضروریات سے ڈیڑھ دو ہزار میگاواٹ زائد ہے۔ اس کا اعتراف حکومتی ذمہ دار بھی کرتے ہیں لیکن پوری صلاحیت کو بروئے کار نہیں لایا جا رہا۔ کہیں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس خراب پڑے ہیں تو کہیں پرائیویٹ کمپنیوں کو بروقت ادائیگیاں نہیں کی جا رہیں۔ سرکاری تھرمل پاور پلانٹس کو تیل کی سپلائی میں تعطل رہتا ہے۔ عدم ادائیگی پر تیل کمپنیاں بھی تیل کی ادھار فراہمی سے انکار کر دیتی ہیں۔ حکومت کے پاس جواز ہے کہ سرکولر ڈیٹ یعنی گردشی قرضوں کا بار 400 ارب تک ہو گیا ہے۔ اس لئے یہ قرض ادا کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ چودھری شجاعت نے NFC ایوارڈ میں صوبوں سے کٹوتی کر کے سرکولر ڈیٹ پر قابو پانے کی بات کی تھی، کچھ ماہرین نے ارکان پارلیمنٹ کے ترقیاتی کاموں کی رقم سرکوکلر ڈیٹ کے لئے استعمال کرنے کی تجویز دی ہے۔ انتخابی موسم کے قریب آنے پر ارکان کی طرف سے ایثار ممکن نظر نہیں آتا۔ حکومت بھی ایسی کسی تجویز پر عمل کا عندیہ دے کر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالے گی۔
بجلی کے بڑے نادہندگان میں وفاقی حکومت کے ذمے 14.9 ارب روپے، آزاد کشمیر 10.8، فاٹا 12.3، کے ای ایس سی 45.9، پنجاب 6.8، خیر پی کے 19.9، سندھ 42.9، بلوچستان 5.6 ارب میں شامل ہیں دیگر سرکاری اداروں کے ذمے کُل ملا کے 312 ارب روپے کی رقم بن جاتی ہے، باقی بجلی چوروں کے ذمہ ہے۔ حکومت یہ کیوں نہیں کرتی کہ جن کے ذمے یہ قرضے ہیں ان سے وصولی کرے۔ بجلی بڑے بڑے اداروں اور صوبائی حکومتوں نے استعمال تو کی لیکن ادائیگیاں نہیں کی گئیں۔
آج انرجی کے حوالے سے قوم کو دو مشکلات کا سامنا ہے۔ انرجی کی قلت اور ہوشربا قیمت۔ سرکوکلر ڈیٹ کا خاتمہ ہو جائے تو بجلی کی تسلسل کے ساتھ ترسیل ممکن ہے لیکن تھرمل پاور پلانٹس سے پھر بھی بجلی مہنگی پڑے گی۔ تھرکول‘ ونڈ اور سولر بجلی کے ذرائع موجود ہیں ان کو بروئے کار لانے میں وسائل اور طویل عرصہ درکار ہے۔ ہائیڈل پاور پراجیکٹس سے آج بھی ایک روپے سے کم لاگت پر فی یونٹ بجلی دستیاب ہے۔ 18500 میگاواٹ میں سے پانی سے صرف 6500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ بالادست حکومتی طبقہ کی جانب سے ملک و قوم کی انرجی بحران سے خلاصی کی کوئی کمٹمنٹ نظر نہیں آتی۔ کمیشن، کمائی اور کک بیکس مقصدِ حیات بن گئیں۔ ترغیبات ترجیحات میں ڈھل گئیں۔
چین کے پاس ہائیڈل پاور پراجیکٹس سے بجلی کو دس گنا بڑھانے کی استعداد اور مہارت ہے۔ چین نے شنڈونگ ڈیم کی 7 ہزار میگاواٹ پیداوار کو اس مہارت کے ذریعے 70 ہزار بنا لیا۔ اس کمپنی نے پاکستان کو بھی پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کو دس گنا کرنے کی پیشکش کی جس کو ہمارے بالادست طبقوں نے بسر و چشم قبول فرما لیا لیکن آج چار سال بعد بھی اس معاملے کو آگے نہیں بڑھایا گیا --- کیوں؟ شاید یہ منصوبہ ان حکومتی شخصیات کے لئے رینٹل پاور پلانٹس کی طرح ثمر آور نہیں تھا۔ اب خبر آئی ہے کہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لئے حکومت 14 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر جلد کام شروع کرے گی۔ چین ان ڈیموں کی تعمیر کے لئے 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ فراہم کرے گا جبکہ ڈیموں کی تعمیر کے لئے چین تکنیکی و فنی معاونت بھی فراہم کرے گا۔ اس منصوبے میں حکومت گہری دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے اور منصوبے پر جلد کام شروع ہونے کا بھی ”خدشہ“ ہے۔ ان کو 70 کروڑ کے قرضے سے غرض ہے چین کی تکنیکی و فنی معاونت سے کوئی سروکار نہیں۔ 14 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر حکومت کی جلد بازی اور موجودہ ہائیڈل پاور کو دس گنا کرنے کے منصوبے سے عدم دلچسپی کی وجہ بالکل واضح ہے۔ 70 کروڑ میں سے ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے کچھ بچے گا بھی، اس کے بارے میں ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کہانیوں کے منظر عام پر آنے کے باعث کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ ملک و قوم کی حالت پر رحم فرمائے۔
No comments:
Post a Comment