About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, June 14, 2012



آج ، 14 جون ، 2012

فضل حسین اعوان
میمو کمشن رپورٹ‘ ڈاکٹر ارسلان کیس اور ملک ریاض کی پریس کانفرنس سے کہیں بڑا دھماکہ‘ سنسنی خیز اور لرزا دینے والی ہے۔ اس میں حسین حقانی کو غداری کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ وہ جن لوگوں کے ایما پر ایسا کرتا رہا ان کے دامن بھی اجلے نہیں رہ سکتے۔ ایک ہلکی سی نظر میمو کمشن رپورٹ پر پھر آگے چلتے ہیں۔ ”کمشن کی رپورٹ میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ میمو ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور حسین حقانی اس کے خالق ہیں۔ حسین حقانی نے امریکی مدد چاہی اور وہ امریکیوں کے لئے خود کو ناگزیر ثابت کرنے کے لئے جگہ بنانا چاہتے تھے۔ حسین حقانی اس حقیقت کو بھول گئے کہ وہ ایک پاکستانی شہری ہیں اور وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر ہیں اس لئے ان کی تمام تر وفاداریاں پاکستان کے لئے ہونی چاہئے تھیں۔حسین حقانی نے ایک مجوزہ ’قومی سلامتی ٹیم‘ کے حصہ کے طور پر ایک غیر ملکی حکومت کو اپنی خدمات پیش کیں اور ان ’عظیم خدشات‘ کا اظہار کیا کہ ’پاکستان کے جوہری اثاثے اب ایک واضح ہدف ہیں‘ اور اس طرح یہ کہتے ہوئے کہ آئی ایس آئی کے ’طالبان سے تعلقات ہیں‘ پاکستان کے جوہری اثاثوں کو ایک زیادہ قابل تصدیق اور شفاف حکومت‘ کے تحت لانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ”آئی ایس آئی کے سیکشن ایس کے خاتمے‘ اور ’ان کے مفادات کے خلاف صف آراءقوتوں کو کمزور کرنے‘ کی پیشکش کرکے پاکستانی سیاست میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی اور یہ پاکستان سے غداری کے اقدامات تھے جوکہ آئین پاکستان سے انحراف تھا.... ان کے پاکستان کے ساتھ کوئی واضح رشتے نہیں تھے انہیں انتہائی حساس عہدے پر یعنی امریکہ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا گیا اور تنخواہ اور دیگر مراعات کے علاوہ بیس لاکھ ڈالر کی سالانہ رقم بھی دی گئی۔“ 
میڈیامیں کچھ لوگوںنے ملک ریاض کو مہرہ قرار دیا ہے۔ایسا ہے توسپریم کورٹ کے حکم پر میمو کمشن رپورٹ کا اجرا اور ڈاکٹر ارسلان کیس کا اپنے عروج پر ہونا اتفاق نہیں ہے۔ لگتا ہے یہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ ہے۔ اگر محض جسٹس افتخار کو ہی بدنام کرنا مقصود ہوتا تو 28مئی 2012 کا دن اہم ترین موقع تھا جب جسٹس افتخار کو لندن میں جیورسٹ ایوارڈ دیا جارہا تھا۔ کرسٹینا لیمب بھی سٹوری بریک کرنے پر آمادہ تھی۔ اتفاق صرف یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ملک ریاض حسین کو ہر صورت عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا اسی روز میمو کمشن رپورٹ عوام کی دسترس میں لانے کا حکم دے دیا گیا۔ اگر بحریہ ٹاون کی ریاست کے شہنشاہ کو عدالت میں طلب نہ کیا ہوتا تو بھی میمو کمشن رپورٹ کے اجرا کے روز اسی طرح کی دھانسو اور دھواں دار پریس کانفرنس ہوتی جیسی 12 جون 2012ءکو ہوئی۔ اُس پریس کانفرنس پر بھی اسی طرح کا ارتعاش پیدا ہونا تھا۔
میمو کمشن کی رپورٹ کی شدت کم کرنے کے لئے حکومت نے اپنا آخری کارڈ کھیل لیا خفیہ ہاتھ پکے کانوں سے سن کر سرگرم ہوئے۔ میمو کمشن رپورٹ تین قابل احترام ججوں نے مرتب کی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کے ذریعے یہ رپورٹ ان لوگوں تک پہنچی ہوجنہوں نے اس کے اثرات کم کرنے اور اس کو عوام کی توجہ کا مرکز بننے سے روکنے کے لئے اپنے پتوں کو ترتیب دینا شروع کر دیا۔ رپورٹ دیگر بہت سے ذرائع سے لیک ہو سکتی ہے۔ حسین حقانی نے نہ صرف کمشن سے تعاون نہیں کیا بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ سپریم کورٹ کو کمشن بنانے کا اختیار ہی نہیں اور پھر تحقیقات کے دوران وہ کمشن کی طلبی پر پاکستان آنے کا وعدہ کرکے ایسے رفوچکر ہوئے کہ کمشن کی طلبی کو بھی کوئی اہمیت نہ دی۔ ان کے وکیل نے کمشن کا بائیکاٹ کردیا۔ اس سب کے پیش نظر بھی کمشن کی رپورٹ کا تعین کیا جا سکتا تھا۔
آج صورت حال یہ ہے کہ میڈیا میں شہر شہر‘ گلی گلی اور قریہ قریہ ڈاکٹر ارسلان کیس اور ملک ریاض حسین کی پریس کانفرنس کا چرچا ہے۔ میمو کمشن رپورٹ اسی تذکرے میں دب کر رہ گئی۔ یہی میمو کیس سے جڑے کرداروں کا مقصد اور مطمح نظر تھا۔ جو مکمل طور پر پورا ہو گیا۔ اب شاید ڈاکٹر ارسلان کیس میں وہ شدت عروج اور زلزلہ دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے۔ 
جسٹس افتخار محمد چودھری سے حکومت خوش ہے نہ بحریہ ٹاون والے ،حکومت نے ارسلان کیس اور ملک ریاض کی کانفرنس سے میمو کمشن رپورٹ پر گرد ڈالنے اور اس سے پوری دنیا کی توجہ ہٹانے کا بڑا بلکہ بہت بڑامقصد حاصل کر لیا۔ اگر اسی ایک تیر سے دوسرا شکار ہو جائے تو ان کی نظروں میں کیا برا ہے۔ میمو کمشن رپورٹ پس منظر میں چلی گئی ساتھ جسٹس افتخار کو ہٹانے یا حالات ایسے پیدا کردئیے جائیں کہ وہ خود اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں تو اس سے زیادہ انکے خلاف بساط بچھانے والوں کو کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ بلاشبہ جسٹس افتخار چودھری پر ایک بڑا حملہ ہوا ہے لیکن یہ جرنیلوں کے ساتھ بیٹھ کر دھمکیاں سننے سے کہیں کم تر حدت کا ہے۔ وہ جسٹس افتخار کا پہلا پہلا تجربہ تھا اب تو وہ ایسے حملوں اور کسی وقت کے گہرے دوستوں کے ستم کے بھی عادی ہو چکے ہیں اس لئے جسٹس افتخار کے خیر خواہ حوصلہ رکھیں۔ فوج اور آرمی چیف سے طاقت ور ملک میں کوئی ادارہ ہے نہ شخصیت‘ جسٹس افتخار ایک آرمی چیف جو صدر بھی تھا اور جس کا اقتدار سوا نیزے پر تھا اس کا بے جگری کے ساتھ سامنا کر چکے ہیں۔ اب کسی میں ایسا دم خم نہیں محض سازشیں ہیں، چالاکیاں ہیں بیان بازیاں اور چغلیاں و غیبتیں ہیں جن سے پہاڑ ہلا کرتے ہیں نہ پتھر پگھلا کرتے ہیں۔ میمو کمشن رپورٹ صرف اور صرف عوام اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہوئی ہے۔ اسکے نتائج ان لوگوں کو یقیناً بھگتنا ہونگے جو قومی سلامتی اور سالمیت کےخلاف سازشوں میں ملوث رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کو خریدنا جرم ہے لیکن جو بکتا ہے‘ وہ خریدار سے بھی بڑا مجرم ہے۔ عام لوگ سوال کرتے ہیں کہ پراپرٹی ٹائیکون اگر بکا ہے تو کتنے میں اور کس کے ہاتھ؟؟ خدا کرے کہ یہ دھول یہیں بیٹھ جائے ورنہ ایسا طوفان اٹھنے کا اندیشہ ہے جس میں سب کچھ تلپٹ ہو سکتا اور بکھر سکتا ہے۔ جمہوریت بھی اور خریدار وبکنے والے بھی زد میں آسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment