About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, June 7, 2012

قوم اور قیادت


جمعرات ، 07 جون ، 2012

قوم اور قیادت
فضل حسین اعوان 
چین‘ پاکستان سے دو سال بعد آزاد ہوا۔ اس نے دنیا میں اپنا مقام بنانے میں بڑی تگ و دو کی۔ پسماندہ چین کو کئی شعبوں میں پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت رہی۔ آج وہ دنیا کی مضبوط معیشتوں میں سرِفہرست ہے۔ جہاں تک کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی سے خائف ہے‘ چین کو یہ مقام اس کی اعلیٰ لیڈرشپ کی بدولت حاصل ہوا۔ قیادت مخلص ہو تو قوم اس کے شانہ بشانہ ہوتی ہے۔ آج ہمیں جس قیادت سے ”واہ“ پڑا ہے اس کے بارے میں برملا کہا جا سکتا ہے۔
چور اچکے چودھری - غنڈی رن پردھان
چین میں شیان جھیل 450 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ مچھلیوں کی نسل کشی (بریڈنگ) کے دوران کئی کئی دن جھیل پر بگلے یوں تیر رہے ہوتے ہیں کہ تاحدِ نظر جھیل پر ایک سفید قالین بچھا دکھائی دیتا تھا۔ ماہرین نے حکومت کے کان میں پھونکا کہ بگلے لاکھوں ٹن مچھلی کھا جاتے ہیں۔ اس کو بچا لیا جائے اس کی ایکسپورٹ سے کروڑوں ڈالر مزید کمائے جا سکتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بگلوں کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ اس پر غور کیا گیا۔ سیانوں کے مشورے پر حکومت نے دس بگلے مارنے پر مخصوص انعام مقرر کر دیا۔ تین ماہ بعد جھیل کا نیلا پانی لشکارے مارتا نظر آتا تھا۔ ماہی پروری کی وزارت پہلے سے دگنا پیداوار کی توقع لگائے بیٹھی تھی۔ بریڈنگ کے موسم میں جھیل کی سطح پر ہر طرف ”پونگ“ تیرتا دکھائی دیتا تھا۔ جسے دیکھ کر وزارتِ ماہی پروری کے حکام اور اہلکاروں کی خوشی کے مارے باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ پھر مچھلی پکڑنے کا سیزن آیا تو پوری جھیل بانجھ پائی گئی۔ کوئی مچھلی موجود ہی نہیں تھی۔ ماہرین نے پھر سر جوڑے۔ تحقیق کے در کھولے۔ راز سے پردہ اٹھا کہ بیمار پونگ سطح آب پر آجاتا تھا‘ جو بگلوں کی خوراک بنتا۔ اس مرتبہ بیمار مچھلی کے باعث تندرست مچھلی بھی متاثر ہوئی۔ حکومت کی طرف ایک بار پھر زندہ بگلے لانے کا اعلان ہوا۔ چینیوں نے جہاں سے بھی ممکن تھا‘ یہ بگلے لا کر جھیل پر ایک بار پھر سفید قالین بچھا دیا۔
دریائے میکانگ دنیا کا دسواں بڑا دریا چین سمیت 6 ملکوں برما، تھائی لینڈ، لاوس‘ کمبوڈیا اور ویتنام سے گزرتا ہے۔ ہر سال جون میں بپھر کر تباہی پھیلا دیتا تھا۔ لاکھوں لوگ دریا کی حشر سامانیوں کی نذر‘ اس سے کہیں زیادہ بے گھر ہو جاتے۔ ماو نے انجینئروں کو بلایا۔ انہوں نے دریا کا رخ موڑنے کا مشورہ دیا۔ ماو نے پوچھا کتنا عرصہ لگے گا۔ بتایا گیا‘ اڑھائی لاکھ افراد کو 9 سال مسلسل کام کرنا ہو گا۔ ماو نے کہا ایک سال میں اگر یہ منصوبہ مکمل کرنا ہو تو؟ بتایا گیا ساڑھے بائیس لاکھ افراد روزانہ درکار ہوں گے۔ صدر ماو نے عوام سے اپیل کی جس پر ساڑھے 22 لاکھ افراد ایک دن آئے اگلے روز نئے ساڑھے بائیس لاکھ آ گئے۔ اس سے اگلے دن اتنے ہی نئے لوگوں نے یہ فریضہ انجام دیا یوں ایک سال میں کارِخیر تکمیل کو پہنچ گیا۔ آج چین کہاں اور اس کا مددگار پاکستان کہاں۔ ہم ترقی کی شاہراہ پر چلتے چلتے ایسا بھٹکے کہ تاریکیوں کی غلام گردشیں مقدر بن گئیں۔ چین کو رہبر ملے تو وہ ترقی کی معراج پر جا پہنچا۔ ہمیں رہزنوں سے پالا پڑا تو ہم پستیوں کی گہرائیوں میں اتر گئے۔ جہاں حکمران کرپشن‘ لوٹ مار اور وسائل پر ذاتی تصرف کو اپنا حق سمجھیں تو عوام کو ٹیکس دینے‘ مشکل حالات میں معاون بننے پر کیسے آمادہ کیا جا سکتا ہے؟
بالادست طبقے کی کرشمہ سازیوں پر مجھے یہ واقعہ بے طرح یاد آ رہا ہے۔ ایک دانشمند مفلس نے بادشاہ کے حضور پیش ہو کر مدد کی درخواست کی۔ بادشاہ نے وزیرِ خوراک سے کہا اسے دو من آٹا‘ من چاول‘ 5 سیر گھی‘ سیر شکر.... وغیرہ دے دو۔ غریب نے جان کی امان کی شرط پر عرض کیا۔ حضور جدی پشتی بادشاہ نہیں لگتے۔ بادشاہ تلملایا۔ جان کی امان کا وعدہ کر چکا تھا۔ پوچھا ”کیا بکواس ہے! ہماری بادشاہت سات پشتوں سے ہے“۔ نادار دانشور نے اپنے قول پر اصرار کرتے ہوئے عرض کی۔ ”حضور آپ خاندانی بادشاہ ہوتے تو ایک مفلس کو مالامال کرنے کا حکم دیتے۔ آپ حساب کتاب میں پڑ گئے۔“ بادشاہ کی ماں زندہ تھی۔ اس کے پاس گیا اور حقائق سے پردہ اٹھانے کی درخواست کے ساتھ سختی کا عندیہ بھی دیا۔ ملکہ نے اعتراف کیا کہ ہم بے اولاد تھے۔ تمہیں محل کے ایک نوکر سے گود لیا تھا.... آج ہمارا پالا بھی خاندانِ غلامان سے تعلق رکھنے والے بالادست طبقے سے پڑا ہے‘ جو بالائی پر اپنا حق سمجھتا تلچھٹ عام آدمی کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی بالادستی ہوتے ہوئے پاکستانی وہ قوم کیسے بنیں گے جس کی تشکیل قائداعظم نے کی تھی۔ موجودہ حالات کی اس دلدل اور کھوبے سے نکلنے کیلئے مخلص‘ اصلی اور نسلی لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔ قائدِاعظم جیسی لیڈرشپ مل جائے تو بہترین قوم خود بخود تشکیل پا جائے گی۔ پھر بحران رہیں گے نہ مسائل اور مصائب‘ دریائے میکانگ کا رخ موڑنے کی طرز پر ہم ایک کال پر کالاباغ ڈیم جیسے منصوبے چند ماہ میں تعمیر کر دکھائیں گے۔



No comments:

Post a Comment