About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, June 6, 2012

دفاعی بجٹ کا حساب ؟


5 جون ، 2012

دفاعی بجٹ کا حساب ؟
فضل حسین اعوان ـ
اگلے مالی سال 2012-13 کے قومی بجٹ 2960 ارب میں سے دفاع کے لئے 545 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ رواں سال کے مقابلے میں اگلے سال دفاع کے لئے 50 ارب زائد دیئے گئے ہیں۔
دشمن کی تلچھٹ کھانے والے ایک حلقے نے فوج کے بجٹ کو قومی بجٹ کا 40فیصد قرار دیا ہے حالانکہ یہ صرف18 فیصد ہے۔ اس کو بھی ہیوج قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارا ایک مکار، عیار اور توسیع کے لئے برسر پیکار اور اکھنڈ بھارت کے لئے ہمہ وقت تیار دشمن سے پالا پڑا ہے۔ اس کی افواج کی تعداد اور اسلحہ کی مقدار پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ رواں سال کیلئے 40 ارب ڈالر مختص کیا گیا ہے پاکستانی روپے میں یہ 3800 ارب مالیت بنتی ہے جوہمارے دفاعی بجٹ سے سات گنا زیادہ جبکہ اسکا حجم ہمارے کل قومی بجٹ سے بھی 900 ارب زائد ہے۔ہماری افواج کی تعداد سات ساڑھے سات لاکھ ہے اتنی فوج تو بھارت نے صرف مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر رکھی ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت جارحیت پر اُترا بیٹھا ہے، ایسی کیفیت میں وہ ہماری افواج کی تعداد اور اسلحہ کی مقدار دیکھ کر وار نہیں کرے گا وہ دستیاب تمام وسائل کو بروئے کار لائے گا۔ ہماری افواج کی نفری اور اسلحہ کی مقدار ہمارے محدود وسائل کے مطابق ہے جو دشمن کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔ اس کمی کو فوج کی بہترین مہارت اور اسلحہ کے معیار سے دور کیا جا سکتا ہے۔ الحمدللہ فوج مہارت اور اسلحہ معیار کے حوالے سے قوم کے لئے اطمینان بخش ہے۔ 
پاک فوج نے دفاعی بجٹ کے لئے 6 کھرب روپے مانگے تھے۔ حکومت نے 545 ارب یعنی ڈیمانڈ سے 55 ارب روپے کم دئیے ہیں۔ اندرونی معاملات میں ہر ایشو پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے دفاع پر ہرگز، ہرگز نہیں۔ آپ محاذ جنگ پر 5 کے بجائے چار سپاہی تو کسی پوسٹ اور مورچے میں تعینات کر سکتے ہیں چار کو دشمن سے لڑنے کے لئے دو بندوقوں سے کام چلانے کا نہیں کہہ سکتے، فوج کو جو ضرورت ہے حکومت سے فراہم کرے پھر ایبٹ آباد جیسا سانحہ ہو تو جواب طلبی بھی کی جائے۔ فوج واقعی رات کو جب قوم سو چکی ہوتی ہے تو جاگتی ہے۔ ایبٹ آباد اپریشن سے یہ تاثر ضرور پیدا ہوا کہ اُس رات فوج کو بھی اونگھ آ گئی تھی۔ اب نوید قمر صاحب کے کندھوں پر وزارت دفاع لاد دی گئی ہے فوج کو رات کے وقت بھی جگائے رکھنے کے وزیر دفاع کی دن کو اور وہ بھی سرِ محفل سو ڈھولوں کی گڑگج میں آنکھ لگی ہوتی ہے۔ خدا ہمارے ملک، قوم، فوج کی حالت پر رحم کرے اور ایسا کرنے والوں کو راہ ہدایت دکھائے۔ 
ایک طبقہ فوجی بجٹ کو ہیوج قرار دیتے ہوئے اس میں کمی کے ساتھ ساتھ فوج سے اس کا حساب بھی مانگتا ہے۔ یقیناً فوج کو اپنے لئے مختص پائی پائی کا حساب دینا چاہئے۔ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ پارلیمنٹ میں حساب کتاب پیش کیا جائے۔ ایک بڑے حلقے کی رائے ہے کہ حساب پارلیمنٹرین نہیں ریاست کو دیا جانا چاہئے۔ پارلیمنٹرین تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے خالصوں کی لسٹیں راجیو گاندھی کے حوالے کر کے ہندوستان کو ٹوٹنے سے بچایا۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پارلیمنٹ کی اِن کیمرہ کارروائی کی ایک تفصیل اپنے امریکی آقاوں تک پہنچا دی، ایسے بھی ہیں جو ڈرون حملوں کو نظر انداز کر کے نیٹو سپلائی بحال کرنے کے لئے مرے جا رہے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو اپنے ہی جرنیلوں کی شکایتیں اپنے پروردہ کو لگاتے ہیں۔ فوجی بجٹ اور اخراجات پر اِن کیمرہ بحث ہوئی تو مکمل معلومات پاکستانی میڈیا تک پہنچنے سے قبل ان لوگوں تک پہنچ چکی ہوں گی جو ایسی جنس کے خریدار ہیں۔ فوج وزارت دفاع کے ماتحت ادارہ ہے۔ عمران خان نے کہا ہے فوجی بجٹ کا آڈٹ ہونا چاہئے۔ یہ کام وزارت دفاع کے کرنے کا ہے۔ اگر یہ ماتحت ادارے کا آڈٹ بھی بھی نہیں کر سکتی تو اس سفید ہاتھی کا فائدہ؟ دفاعی کمیٹی میں بھی سیاستدانوں کی اچھی خاصی نمائندگی ہے۔ اس کمیٹی کا سربراہ بھی پارلیمنٹرین اور حکومت کا نامزد کردہ ہوتا ہے۔ کمیٹی بھی چاہے تو فوج سے حساب کتاب مانگ سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں فوجی بجٹ پر بحث سے آپ دشمن کے سامنے اپنی بند مُٹھی کھول دیں گے جس کا ملکی سلامتی اور سالمیت کے لئے بند رہنا ناگزیر ہے۔

No comments:

Post a Comment