کَشَفَ الدُّجٰی بِجَماَلِہ
فضل حسین اعوان ـ
کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَماَلِہ حافظ شیرازیؒ کی رباعی کا ایک مصرع ہے جس کا اردو میں منظوم ترجمہ یوں کیا گیا ہے:
”غائب اندھیرے انکی نمودِ جمال پر“
اس مصرع کا عملی اظہار تو پوری دنیا نے دیکھا‘ محسوس شاید بہت کم لوگوں نے کیا۔ کچھ دنوں سے بجلی کی انتہائی کی قلت ہے۔ دو چار روز سے تو لوڈشیڈنگ ایک عذاب کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کافی عرصہ ایک گھنٹے بعد ایک گھنٹہ بجلی کی آمد اور بندش معمول رہی پھر دو گھنٹے کے بعد ایک گھنٹہ اور اب تین سے چار گھنٹے لگاتار بند رہتی ہے۔ درمیان میں کبھی ایک گھنٹہ اور کبھی بیس سے تیس منٹ بجلی جھلک دکھاتی ہے۔ گویا چھوٹے چھوٹے وقتوں کے ساتھ پورا دن ہماری پیدا کی ہوئی بجلی غائب رہ کر آسمانی بجلی کی طرح ہم پر کرکٹی گرجتی اور برستی ہے۔ لوگوں نے بجلی کی کمی کے عذاب سے نجات کےلئے یو پی ایس خرید رکھے ہیں۔ ان کا المیہ یہ ہے کہ انہیں چارجنگ کےلئے بھی بجلی درکار ہے۔ جب چار گھنٹے بعد ایک گھنٹہ یا اس سے بھی کچھ کم وقت ان کو بجلی ملے گی تو کارکردگی بھی ایسی ہی ہو گی۔ بجلی کے مارے ہوئے لوگ اسکی بے وفائی کے اثرات سے بچنے کےلئے جو بھی ممکن ہو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جون کا وسط گرمی کا عروج ہوتا ہے۔ 17 جون کو سورج کی تپش کم ہوئی تو ہم گھر کے افراد چھت پر چلے گئے۔ عشاءکے بعد کسی مسجد سے نعتوں کی آوازآرہی تھی اور کسی سے واقعہ معراج النبی بیان ہو رہا تھا۔ کچھ لوگ ایسی صورتحال میں آوازوں کو گڈ مڈ قرار دیتے ہیں۔ کچھ تو اسے شور شرابہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر آپ اپنی توجہ پسند اور مرضی کی سماعت پر مرکوز کر لیں تو آپ کے کانوں میں وہی آواز آئےگی جو آپ سننا چاہتے ہیں، کبھی کرکے دیکھئے۔
17جون کی شب ہی معراج النبی تھی۔ اس رات ہلکی ہلکی ہوا چلتی رہی جس میںتپش کی بجائے ہلکی ہلکی خنکی احساس لطیف کی طرح موجود تھی۔ میں تو اسے معراج النبی کی برکت ہی قرار دوں گا۔ رات تقریباً دس سوا دس بجے بجلی کی بندش کو اڑھائی تین گھنٹے ہو چکے تھے۔ یو پی ایس جواب دے چکے تھے کسی طرف سے مصنوعی روشنی کی کوئی رمق نہیں تھی کہ میری بیٹی نے توجہ دلائی کہ روشنی کتنی زیادہ ہے! میں نے غور کیا تو واقعی رات چمک دمک رہی تھی۔ ایک روز قبل بھی ہم اسی کیفیت میں چھت پر تھے تو جوتا ڈھونڈنے میں دقت ہو رہی تھی۔ آج چھت پر ہر چیز بالکل واضح چودھویں کے چاندمیں نہاتی ہوئی شب کی مانند دکھائی دیتی تھی۔ انٹرنیٹ کی سفید تاریں، کپڑے سکھانے والی باریک رسیاں، ایک پڑوسی کی طرف سے دوسرے کو دیا گیا تیس پینتیس گز دور سے گزرتا ہوا پائپ، سامنے دیوار کی ایک ایک اینٹ اور چارپائی کے نیچے پڑا پانی کاجگ اور گلاس صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میرے خیال میں تو یہ معراج النبی کی برکت سے نور میں نہائی ہوئی بابرکت شب تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ براق النبی ابھی گزری ہو اور اسکے نور کی بکھری کرنوں نے ماحول کو بقعہ نور بنا کر منور کر دیا ہے۔ دن کی طرح رات کو بھی مطلع صاف تھا کہ اچانک رم جھم ہونے لگی۔ شاید کسی بدلی نے حضور کی سواری کا عکس محسوس کرکے اظہار مسرت کیا ہو۔
کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَماَلِہ اس مصرع کا ترجمہ پروفیسر خالد بزمی صاحب کا کیا ہوا ہے جو ہمیں پوری رباعی اور ترجمے سمیت میاں محمد صادق قصوری نے بھجوایا ہے۔ میاں محمد صادق قصوری کے ساتھ ساتھ پروفیسر میاں عزیز قریشی نے بھی اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہ رباعی حافظ سعدی شیرازی کی ہی ہے۔ رباعی بمعہ ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
بَلَغَ ال ±عُلٰی بِکَمَالِہ
کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَماَلِہ
حَسَنَت ± جَمِی ±عُ خِصَالِہ
صَلُّو عَلَی ±ہِ وَآلِہ
(سعدی)
پہنچے بلندیوں میں وہ اوج کمال پر
غائب اندھیرے ان کی نمودِ جمال پر
ہے حسن عکس ریز سب ان کے خصال پر
ان پر درود بھیجئے اور ان کی آل پر
(پروفیسر خالد بزمی)
واللہ باکمال ہے حضرت کا ہر کمال
وہ آفتاب حسن ہیں آئینہ جمال
سیرت میں بے مثال ہیں وہ شاہ خوش خصال
مصداق ہیں درود کے اور ان کی آل
(پروفیسر مطلوب علی زیدی)
آخر میں ملاحظہ فرمائیے‘ حضرت حسان بن ثابتؓ کے دو نعتیہ اشعار:
وَاَح ±سِنُ مِن ±کَ لَم ± تَرَقَطُّ عَی ±نِی
وَاَج ±مَلُ مِن ±کَ لَم ± تَلِدِالنَّسائ
خُلِقُتَ مَبَرامِّن ± کُلِّ عَی ±بٍ
کَاَنَّکَ قَد ± خُلِق ±تَ کَمَاتَشَائ
کا منظور اردو ترجمہ پروفیسر خالد بزمی سے سن لیجئے:
تجھ سے حسین آنکھ نے دیکھا نہیں کبھی
تجھ سے جمیل ماﺅں نے اب تک نہیں جنا
ہر عیب سے بری تجھے پیدا کیا گیا!
گویا تو جیسے چاہتا تھا ویسے ہی بنا
No comments:
Post a Comment