جون21 ، 2012
نااہلی ۔۔ احتساب کا آغاز!
فضل حسین اعوان ـ
حکمرانوں کی خود سری اور بیورو کریسی کی سرکشی ہی عوامی مسائل و مصائب اور معاشرے کی بے راہروی کا سبب ہے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے۔ احتساب‘ کڑا‘ بے لاگ اور بلاامتیاز احتساب‘ جس کا آغاز یوسف رضا گیلانی کے نااہلی کے فیصلے سے ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
سید یوسف رضا گیلانی کی چار سال ایک ماہ اور دو دن کی وزارت عظمیٰ کے دور کا جائزہ لیا جائے تو ایک بھیانک تاریک اور دل دہلا دینے والا منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ اتنی کرپشن پاکستان کی پوری تاریخ میں ہوئی نہ اس قدر قرضے لئے گئے۔ کرپشن کا اثر براہ راست عام آدمی پر پڑا۔ جس کا چولہا بجھا اور آشیاں جلا۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار مشرف کی پروردہ ق لیگ سے مشرف ہی کی نگران حکومت کے ذریعے منتقل ہوا۔ جاتے جاتے ق لیگ کھیت اجاڑ گئی رہی سہی کسر نگرانوں نے پوری کر دی۔ گیلانی حکومت نے کسی اصلاح اور بہتری کے بجائے ستیاناس کرکے رکھ دیا۔ گیلانی حکومت کے یہ چار سال کرپشن کے عروج کا دور ہے۔ جس میں مبینہ طور پر سب سے زیادہ ہاتھ ان کے اپنے خاندان کے کم از کم 6 افراد کا ہے۔ گذشتہ روز 19 جون 2012ءکو سپیکر کی رولنگ کیس میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم گیلانی کو نااہل قرار دیا تو اس روز بھی پنجاب میں 18 سے 20 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ رہی۔ امن و امان کی صورتحال اور مہنگائی و بیروزگاری کا جو سامان ان چار سال میں کیا گیا ایسا تو شاید برسوں جنگ کا شکار رہنے والے ممالک میں بھی نہیں ہوتا ہو گا۔ مارچ 2008ءمیں جب زمامِ اقتدار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ملتانی مرشد کے سپرد کی تو ڈالر 62 روپے کا تھا جو اب 96 کا ہو چکا ہے۔ چینی 25 سے 75 اور ڈیڑھ سو روپے کلو تک بھی گئی۔ بجلی کا اوسط یونٹ 4 سے 10 روپے ہو گیا۔ سٹاپ ٹو سٹاپ کرایہ 5 سے 15 روپے‘ گھی 50 سے 170 اور باقی اشیاءضروریہ کی قیمتیں بھی ڈیڑھ سے دو اڑھائی گنا تک بڑھی ہیں۔ پاکستان میں گیس کی لوڈشیڈنگ بھی گیلانی حکومت نے متعارف کرائی دو سال سے سی این جی سٹیشن ہفتے میں تین دن بند رہتے ہیں۔ ”گڈ گورننس“ کے دوران اپنی اولاد‘ اتحادیوں‘ ساتھیوں اور دوستوں کی کرپشن کی پردہ پوشی کے لئے 10 ڈی جی FIA بدلے گئے۔ اٹارنی جنرل تو ہر دوسرے تیسرے ماہ بدلتا ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ بھی تین بار نکالے اور رکھے گئے۔
سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلیت میں عوامی مسائل‘ حکومت کی نااہلی اور کرپشن کے سر چڑھ کر بولتے جادو‘ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ان کی نااہلیت کا سبب ان کے اقتدار بلکہ ان کے الیکشن سے بھی قبل جنم لینے والا این آر او ہے۔ جس میں 8 ہزار افراد کے اربوں کے قرضے معاف قتل‘ بھتے اور لوٹ مار کے گناہ دھو ڈالے گئے تھے۔ این آر او مشرف کا تخلیق کردہ تھا جسے اسی پارلمینٹ کے ”پارسا“ پارلیمنٹیرین نے جس نے مرشد ملتانی فرزند سورج میانی‘ سید یوسف رضا گیلانی کو متفقہ وزیراعظم منتخب کیا تھا‘ نے این آر او کو ایک گندگی سمجھ کر اپنے قریب نہیں آنے دیا تھا۔ پھر یہ این آر او سپریم کورٹ میں لایا گیا جس نے 16 دسمبر 2009 کو اسے کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے تناظر میں وزیراعظم گیلانی کو سپریم کورٹ نے بار بار سوئس حکام کو خط لکھنے کا کہا اور موقع دیا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کیس لڑنے کے لئے سو روپے کا وکیل کیا۔ 100 روپے میں اتنا ہی آتا ہے جتنا مل گیا۔ پھر نئے اٹارنی جنرل دلائل دینے کے بجائے عدالت میں اودھم مچاتے اور ججوں کو آنکھیں دکھاتے رہے۔ فخر مُلت کو یقیناً اپنے انجام کا علم تھا لیکن شاید اس زعم میں تھے کہ جس طرح 26 اپریل کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دئیے جانے پر سپیکر نے آئین کے بجائے پارٹی سے وفاداری دکھائی اسی طرح 19 جون کے نااہلی کے فیصلے پر زرداری پھر پارلیمنٹ میں اتحادیوں کے ساتھ ان کی وزارت عظمیٰ برقرار رکھنے کے لئے کوئی کھیل کھیلیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اقتدار کی خاطر عزت سادات گئی وزارت عظمیٰ جاتی رہی‘ 5 سال کے لئے نااہلی مقدر میں لکھ دی گئی‘ ساتھ وہ ریکارڈ بھی غارت ہوا جس کا بڑے فخر سے چند روز قبل اظہار کیا تھا کہ انہوں نے طویل عرصہ تک وزیراعظم رہنے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ یہ اعزاز بدستور لیاقت علی خان کے پاس 4 سال 2 ماہ اور دو دن کے ساتھ ان کے کھاتے میں ہے۔
گیلانی پر آئین شکنی کا الزام لگا۔ اس سب کے باوجود انہوں نے جائز سہی یا ناجائز پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاداری کا حق ادا کر دیا۔ جس اعتماد کا اظہار زرداری نے ان پر کیا تھا وہ اس پر پورا اترے اور سرخرو ہوئے۔ پانچ سال دیکھتے ہی دیکھتے گزر جائیں گے۔ پارٹی انہی ہاتھوں میں رہی اور قیادت نے موجودہ روش‘ سوچ اور رویہ برقرار رکھا تو گیلانی کا مستقبل روشن ہے۔ قوم کا خواہ موجودہ حالات کی طرح تاریک ہی رہے۔ یوسف رضا گیلانی تو پارٹی پر قربان ہو گئے۔ کیا اگلا وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھ دے گا؟ اگر نہیں لکھے گا تو گیلانی جیسے بلکہ اس سے بدتر انجام سے چند ہفتوں میں دوچار ہو جائے گا۔ سوئس بنکوں میں پڑا 6 ملین ڈالر کا سرمایہ ایک حقیقت ہے۔ استثنیٰ کے نام پر اس کا پھند زرداری صاحب کب تک اپنے جانثاروں کے گلے میں ڈالتے رہیں گے؟ چند روز میں میمو کیس کی سماعت بھی ہونی ہے۔ اس کا پھندہ کئی کے گلے میں پڑے گا۔ اصغر خان کیس بھی بڑی تیزی سے انجام کی طرف جائے گا۔ سرحد اسمبلی شاہ سے بھی زیادہ شاہ کی وفادار نکلی سپریم کورٹ کے فیصلے پر احتجاجاً اجلاس برخواست کر دیا۔ ابھی سپیکر صاحبہ کے ساتھ ان پارلیمنٹیرین کا حساب ہوتا بھی نظر آرہا ہے جنہوں نے گیلانی صاحب پر اعتماد کا اظہار اور سپیکر کی رولنگ کی حمایت میں قراردادیں پیش اور منظور کیں۔
گیلانی صاحب نے اپنی بے آبروئی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کی پہلی سیاسی بیعت جنرل ضیاءاور دوسری وزیراعظم محمد خان جونیجو کے ہاتھ پر تھی۔ محمد خان جون 1988ءکو کابینہ اور حکومت سمیت معزول کئے گئے تو انہوں نے اسی روز وزیراعظم ہا وس چھوڑ دیا اور جاتے ہوئے سندھڑی میں وزیراعظم ہا وس کی تزئین و آرائش پر خرچ ہونے والے سوا یا ڈیڑھ لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرا دئیے تھے۔ مرشد کی کرپشن کا احتساب اور حساب بعد میں‘ گیلانی صاحب 26 اپریل سے 19 جون تک وزیراعظم کے طور پر لی گئی مراعات ذاتی اور دورہ برطانیہ پر اٹھنے والے اخراجات محمد خان جونیجو کی طرح قوم کو واپس لوٹا دیں۔
وزیراعظم گیلانی کی نااہلیت سپریم کورٹ کی طرف سے احتساب کی ایک عظیم تر مثال ہے۔ امید رکھنی چاہئے کہ احتساب کا سلسلہ ایک درجہ مزید اوپر جا کر نیچے تک آئے گا اور سپریم کورٹ کے اسی اقدام سے انقلاب جنم لے گا۔ پرامن انقلاب قوم و ملک کو خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار کر دینے والا انقلاب‘ جب ملک و قوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی بیرون ممالک سے واپس لاکر قومی خزانے میں جمع کر دی جائے گی۔
No comments:
Post a Comment