About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, May 6, 2012

محصورینِ برف۔ گیاری کے شہدا؟


 اتوار ، 06 مئی ، 2012

محصورینِ برف۔ گیاری کے شہدا؟
فضل حسین اعوان 
آج گیاری سیکٹر سیاچن میں ملک و ملت کی ناموس پر مرمٹنے کا عزم کرنیوالے 139سپوتوں کو برف کے پہاڑ تلے دبے ہوئے ایک ماہ ہونے کو ہے۔ یہ قدرتی آفت اور نا گہانی افتاد تھی یاپاکستان دشمنوں کی سازش،اس بارے میں ہنوز کوئی تحقیق ہوئی ہے نہ ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکی ہے۔ اس معاملے میں غورو خوض تحقیق ،تفتیش وقت گزرنے کے ساتھ ہوتی رہے گی فی الحال پاک فوج کی پہلی ترجیح اور فوری طورپر کرنے کاکام برف تلے دبے مردانِ حق کی بازیابی ہے جس کیلئے سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں۔نہ صرف پاک فوج اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تمام تر وسائل استعمال کر رہی ہے بلکہ دنیا کی ماہر ترین ٹیمیں بھی ہر ممکن امداد اور تعاون فراہم کر رہی ہیں....سیاچن میں درجہ حرارت منفی 170ڈگری تک گر جاتا ہے۔ برف سے ڈھکے فلک بوس پہاڑوں کی وادی میں ہی برف کے پہاڑ اُگے ہوئے ہیں۔یہاں کسی ذی روح کیلئے یخ بستہ موسم کا سامنا کرنا ممکن نہیں۔ قدرت نے یہ علاقہ شاید انسانوں کی سیاحت کیلئے تو بنایا ہے مستقل بودوباش اوررہائش کیلئے نہیں۔ انسانی جسم کا جو حصہ خصوصی لباس سے باہر رہ گیا وہ چند ثانیے بعد ناکارہ ہوجاتا ہے۔انسانی سانس تک جم جاتی ہے ایسے میں کسی فرد کا برف تلے دب کر چند دن بھی زندہ رہنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ ناممکنات اگر ممکنات کا روپ دھارلیں تو انہیں معجزے کا نام دیا جاتا ہے۔ایسے معجزات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ رواں سال فروری کے شروع میں سبزہ زار لاہور کی ایک فیکٹری بوائلر دھماکے سے گری۔ جس میں درجنوں مزدور لقمہ اجل بن گئے، اس دوران آگ کے بگولے اور ملبے کے ڈھیر سے صالحہ بی بی خاتون 31 گھنٹے بعد زندہ سلامت نکل آئی تھی۔ 2005 کے زلزلہ میں نقشہ بی بی 40 سالہ خاتون کو جرمن امدادی ٹیم نے65 دن بعد بسلامت نکال لیا۔ حضرت علی احمد صابر کلیری کا واقعہ تو مشہور ہے کہ ان کے ماموں حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے ان کو لنگر تقسیم کرنے پر مامور کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کئی برس تک لوگوں کو کھانا کھلاتے رہے خود نہیں کھایا۔ ایک روز بابا فرید نے ان کی نحیف و نزار جسمانی حالت دیکھ کر پوچھا کہ تم کھانا نہیں کھاتے؟ بھانجے نے بڑے ادب سے جواب دیا کہ مجھے مہمانوں کو کھلانے کا حکم دیا گیا تھا خود کھانے کو نہیں کہا تھا۔اس روایت کو مختصر دہرانے کا مطلب ہے کہ قدرت چاہے تو انسان بھوک کی حالت میں برسو ں زندہ رہ سکتا ہے۔اصحابِ کہف300سال کچھ کھائے بغیر زندہ رہے۔ ایسا ہی معجزہ اور کرامت گیاری سیکٹر کے محصورین برف کیلئے بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بم دھماکوں،قدرتی آفات اوردیگر واقعات میں مرنیوالوں کا سوگ قومی سطح پر منایاجاتا ہے۔سیاچن کے مذکورہ فوجیوں کیلئے کیوں نہیں؟ سوگ مرنیوالوں کا ہوتا ہے۔ہم ہنوز رحمتِ خداوندی سے مایوس نہیں ہوئے۔ جب تک محصورین برف کے زندہ بازیاب ہونے کی موہوم سے امید باقی ہے ان کو شہید تسلیم کیسے کر لیں۔ جس بدن میں خون کی گردش جاری اور سانسیں چل رہی ہوں تو ان کو شہید سمجھ کر سوگ منانا عقل سے ماورا سوچ ہے۔محصورین برف کے لئے سانس کب برف بنے اس کا تعین بھی نہیںکرناچاہئے۔ فوج کو امدادی کام کرنے دیاجائے بازیابی کی صورت میں حتمی نتیجہ سامنے آجائےگا۔
آرمی چیف جنرل کیانی امدادی کارروائیوں کا جائزہ لینے کیلئے تیسری مرتبہ گیاری سیکٹر گئے تو انہوں نے وہاں بتایا کہ بھارت نے سیاچن پر اپنی پوزیشن کافی مضبوط کی ہے۔اب حد بندی کی بات کی جارہی ہے۔ جنرل کیانی کے اس بیان کے بعد بھارت کے خبثِ باطن کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔سیاچن کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔اس نے پاکستانی حکمرانوں اور اُس دورکی فوجی قیادت کی غفلت سے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان اور چین کے درمیان ایک دیوار چننے کی کوشش کی اس میں اسے کامیابی نہ مل سکی۔ 1984 میں ہی بھارت کو اس کی جارحیت کا جواب دیاجاناچاہئے تھا ۔بودی اور بھونڈی دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان مغربی محاذ(افغان جنگ) میں مصروف تھا۔اس لئے دوسرا محاذ نہ کھولا ۔ملکی سلامتی اور سالمیت داﺅ پر لگی ہوتو محاذوں کی تعداد نہیں گنی جاتی خود مختاری کے تحفظ کیلئے سب کچھ داﺅ پر لگانا پڑتا ہے۔صحیح وقت پر صحیح فیصلہ اور راست اقدام نہ کرنے پر بھارت کو سیاچن پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع مل گیا۔گزشتہ دنوں میاں نواز شریف نے بہ تکرار یہ کہا کہ پاکستان سیاچن سے فوج واپس بلانے میں پہل کرے۔ جس پر بھارت خوش ہوا۔ نواز شریف کے ایک رتن نے تردید کی تو بھی بھارت کو یہاں نواز شریف کی نیت پر شک نہیں گزرا۔ جنرل کیانی نے دونوں ممالک کو بیک وقت انخلا کی تجویز دی۔اس پر بھی بھارت نے اطمینان کا اظہار کیا۔انخلا کی صورت میں بھارت کو اپنے مذموم ادھورے ناپاک منصوبے کی تکمیل کا موقع مل جائیگا۔سیاچن پاکستان کا حصہ ہے جس سے بھارت کو انخلا پر مجبور کیا جائے یا بیدخل کرنے کو جو بھی کرنا پڑے کرنا چاہئے۔ اس کے بعد بھی پاک فوج سیاچن کی حفاظت کیلئے وہاں موجود رہے۔ سیاچن میں بھارت حصہ دار نہیں۔ جو وہ تاثر دے رہا ہے!


No comments:

Post a Comment