About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, May 3, 2012

نورے


جمعرات ، 03 مئی ، 2012

نورے
فضل حسین اعوان
اکبر بادشاہ کے نورتنوں کی طرح ہمارے حکمرانوں نے بھی کئی کئی رتن رکھے ہوئے ہیں۔ ایوب خان کے کئی رتنوں میں دو اہم ذوالفقار علی بھٹو اور امیر محمد خان المعروف نواب آف کالا باغ تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر ایوب خان کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے اور جان نثاری جتاتے تھے۔ بھٹو صاحب ایوب کو ڈیڈی کہتے تو نواب کالا باغ دوستوں کو باور کراتے ”اُتے خدا تے تھلے ایوب“۔ دونوں میں کوئی اور قدر مشترک ہو نہ ہو ایک ضرور تھی۔ دونوں کے نوکروں کا نام نورا تھا۔ یہ نورے بھی اپنے اپنے آقا کے رتن ہی تھے۔ وفادار اور جاں نثار۔ بھٹو اور نواب کالا باغ کو ایوبی اقتدار کا سورج غروب ہونے تک نورتنی کا اعزاز حاصل نہ رہا۔ البتہ دونوں کے نورے موت کی دہلیز تک وفادار رہے۔ ہم عموماً نورا کشتی کا لفظ سنتے رہتے ہیں۔ یہ کہاں سے آیا۔ کیسے ایجاد ہوا؟ اس کے بارے میں کوئی ثقہ روایت نہیں ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو اور نواب کالا باغ کے نورے ایوبی دور میں ایک دوسرے سے کشتی کرتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے یہ کشتی ان کے آقا بھی دیکھتے ہوں۔ کشتی برابر رہنے۔ باری باری چِتکرنے اور چِت ہونے پر کسی نے محسوس کیا ہو کہ یہ دونوں ملی بھگت سے کشتی کرتے ہیں تو یہیں سے ملی بھگت کو نورا کشتی کا نام دے دیا گیا ہو۔ ایک نورا لبنانی ڈانسر بھی ہے۔ اس کا چونکہ کشتی وغیرہ سے تعلق نہیں ہو سکتا اس لئے ڈانسر نورا کو نورا کشتی میں گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے.... کہتے ہیں نورا کالا باغیا کی شخصیت نواب صاحب کی طرح باوقار اور رعب دار تھی۔ قد کاٹھ ڈیل ڈول مونچھیں اور شکل بھی کسی حد تک نواب سے ملتی تھی۔ نواب صاحب کو گاڑی چلانے کا شوق چراتا تونورے کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر اپنی جگہ بٹھا دیتے جس کا عموماً کسی کو پتہ نہ چل سکتا۔ بھٹو صاحب نورے پر بلا کا اعتماد کرتے‘ مشورے کیلئے اگر کوئی فوری طور پر دستیاب ہوتا تو وہ نورا ہی تھا۔ پیپلز پارٹی کے کئی عام لیڈروں کو بڑا لیڈر بنانے میں نورے کا بڑا ہاتھ ہے۔ تیسرے درجے کے ایک لیڈر نے بھٹو کے قربت کی خواہش ظاہر کی تو نورے نے اسے مشورہ دیا کہ بھٹو صاحب ناشتہ کرکے ہوٹل سے باہر نکلا کریں تو تم میرے پیچھے پیچھے آجایا کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا جس سے دیکھنے والوں تاثر لیا کہ یہ صاحب بھٹو کے اتنے قریب ہیں کہ ان کے ساتھ ناشتہ کرتے ہیں! پیپلزپارٹی کے بڑے لیڈر بھی یہی سمجھنے لگے اور ان صاحب کا شمار محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں نورے کی خدمت بجا لانے کے باعث بڑے لیڈروں میں ہوتا تھا۔ ہمیں ان نوروں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ آج کی سیاست میں نورا کشتی کی اصطلاح کا بڑا چرچا ہے۔ محض ”نورا کشتی“ اصطلاح کی ایجاد یا دریافت تک پہنچنے کی کوشش تھی۔
میاں نواز شریف کی پارٹی کو فرینڈلی اپوزیشن قرار دیا جاتا ہے۔ میاں صاحب نے اس تاثر کو ختم کرنے کی بڑی کوشش کی۔ مرکزی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج لگایا تو پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی اتحادی پارٹی کے طور پر پنجاب حکومت کا حصہ تھی۔ عدلیہ کے حکم پر گورنر راج کا خاتمہ ہوا شہباز شریف کابینہ سمیت بحال ہوئے تو بھی گورنر راج لگانے والی پارٹی ان کے ہمرکاب تھی۔ کیا یہ نورا کشتی تھی؟ عمران خان مرکزی حکومت کی کرپشن کے خلاف تحریک لے کر اٹھے تو ن لیگ نے بھی گو زرداری گو کا نعرہ لگا دیا۔ جواب میں پی پی والے بھی پھنکارتے رہے۔ عمران خان کا خطرہ ٹلا یا تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے تو گو زرداری گو کی تحریک رشوت لینے اور دینے والوں کے ضمیر کی طرح سو چکی تھی۔ شاید یہ نورا کشتی نہ ہو! اب گیلانی توہین عدالت کی زد میں آئے ہیں تو ان کا اقتدار ریت کی دیوار نظر آتا ہے۔ عمران اور منور حسن کی پارٹیاں گیلانی کی بے دخلی کے لئے لانگ مارچ کی بات کر رہی تھیں کہ میاں نواز شریف نے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا لیکن لانگ مارچ کی تاریخ نہیں دی۔ اب پاکستانیوں کی نظریں عمران خان منور حسن کی مجوزہ تحریکوں سے بٹ کرمیاں صاحب کے لانگ مارچ پر لگ چکی ہیں۔ نواز شریف کے ایک رتن چودھری نثار ”اِب کے مار“ کی طرز پر تین بار وزیراعظم گیلانی کو پارلیمنٹ میں آ کر دکھائیں کہہ کر روپوش ہونے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ شہباز شریف زرداری سے کرپشن اور لوٹ مار کے پیسے نکلوانے اور ان کو بھاٹی گیٹ میں گھسیٹنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اس پر زرداری کے رتنوں کا ترکی بہ ترکی جواب آتا ہے۔ ن لیگ والے وضاحت فرما دیں تو بہتر ہو گا کہ زرداری صاحب کی ہستی ان کے لئے کب تک برگزیدہ تھی؟ کیا ان کی کرپشن مرکز سے وزارتیں چھوڑنے یا پنجاب سے پی پی سے وزارتیں چھڑانے کے بعد عیاں ہوئی؟ گیلانی کی 30 سیکنڈ کی سزا کے بعد تو دونوں طرف جذباتی بیانات اور ایک دوسرے پر نئے پرانے الزامات کی ایک آگ سی لگی ہوئی ہے۔ معاملات 90 کی دہائی کی طرح بگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ ایک بار پھر پروبھٹو اور اینٹی بھٹو گروپ میں تقسیم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جس کا فائدہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ہو گا۔ پَتّہ کس کا کٹے گا؟ اس کا جو دونوں کی چوریوں کی بات کرتا ہے۔ عمران خان کو سیاسی ”گیم سے باہر رکھنے کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین نظر آنے والی 1990ءکی طرز کی یہ محاذ آرائی نورا کشتی تو نہیں ہے؟ خدا کرے ایسا نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو قدرت قوم کو نوروں سے محفوظ رکھے۔


No comments:

Post a Comment