About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, May 24, 2012

اردگان کی بھی سنیں


جمعرات ، 24 مئی ، 2012

اردگان کی بھی سنیں!
فضل حسین اعوان ـ
عالمی قوتیں Might is Right یعنی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مقولے پر عمل پیرا ہیں اور یہ کلیہ پاکستان جیسے ممالک میں بڑی کامیابی سے آزما رہی ہیں۔ امریکہ کو افغانستان پر چڑھائی کے لئے پاکستان کے تعاون کی ضرورت تھی جو جنرل پرویز مشرف نے بڑی آسانی سے فراہم کر دیا۔ اس کے بعد نیم جمہوری اور پھر موجودہ مکمل جمہوری حکومت وجود میں آئی لیکن پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جنجال اور جال میں پھنستا اور مسائل و مصائب کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ 
ترک وزیراعظم طیب اردگان نے پاکستان کے تین روزہ دورہ کے دوران اپنے تجربات کی روشنی میں پاکستانی سیاستدانوں کو کچھ معاملات میں بالکل واضح اور کچھ میں اشاروں کنایوں میں مشورے دئیے اور کچھ رموز سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو جمہوریت کی اہمیت اور اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ اپوزیشن کو احساس دلایا کہ اس کا کام حکومت گرانا نہیں حکومت کی اصلاح کرنا ہے۔ حکمرانوں کو بھی باور کرایا کہ وہ بھی شعور کے مطابق اندازِ حکمرانی اپنائیں۔ ترک بھی ہماری طرح تین مارشل لاوں کے زیر عتاب اور زیر عذاب رہے۔ وہاں ایک جمہوری وزیراعظم عدنان مندریس کو جرنیلی حکومت نے پھانسی پر چڑھایا تو پاکستان میں بھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جرنیلی آمریت نے تختہ دار تک پہنچایا۔ فوج نے پس پردہ رہ کر نجم الدین اربکان کو وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنے پر مجبور کیا تو یہاں بھی 1993ءمیں اُسی طریقے سے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا گیا۔ طیب اردگان نے درست کہا کہ جمہوریت آسانی سے نہیں ملتی۔ اس کا طیب اردگان کو احساس بھی ہے اور وہ جمہوریت کی آبیاری کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، یہی سبب ہے کہ وہ اقتدار کے لگاتار اور تیسری بار شہسوار ہیں۔ ہمارے ہاں پہلی ٹرم شروع ہوتے ہی حکمرانوں کی ناہنجاری ہر ادارے کی بیماری اور عوامی بیزاری کا باعث بن گئی۔ اب معاملات اس نہج پر ہیں کہ جمہوریت چراغِ سحر معلوم ہوتی ہے۔ آج بُجھا کہ ابھی بُجھا۔ ہمارے سیاستدان شجرِ نوبہار کی اسی شاح کو کاٹ رہے ہیں جس پر خود بیٹھے ہیں۔ شاید طیب اردگان کی کوئی بات ان کے پلے پڑ گئی ہو اور اب کچھ وقت جمہوریت کی بقا، عوامی فلاح کے لئے بھی نکال لیں۔ 
طیب اردگان مائٹ از رائٹ کا اپنے الفاظ میں ”طاقت ور ہمیشہ درست“ کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ، ثابت کرنا ہو گا کہ ”طاقت ور ہمیشہ درست“ مفروضہ غلط ہے۔ وہ تو ثابت کر چکے ہیں۔ جس طرح کا تعاون جنرل پرویز مشرف سے مانگا گیا اُسی طرح کا امریکہ نے عراق پر حملہ کے لئے ترکی سے بھی مانگا تھا۔ ترکی کے عراق کے ساتھ اپنے بھی تنازعات ہیں لیکن اس نے امریکہ کو فوجی اڈے دئیے نہ کرائے پر فوجی دئیے۔ امریکہ اپنا ماز از رائٹ کا اختیار اور حق ذہن اور زمین کی زرخیزی دیکھ کر ہی استعمال کرتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ زرخیزی کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔ طیب اردگان نے گو نیٹو سپلائی کی بحالی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ساتھ یہ بھی باور کرا دیا کہ اس مفروضے کو غلط ثابت کرنا ہو گا کہ طاقت ور ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ 
آج ہمارا سب سے بڑا درد ڈرون حملے ہیں جو بچوں اور عورتوں سمیت 3 ہزار افراد کی جان لے چکے ہیں۔ امریکی حکام اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں صرف اڑھائی تین فیصد مطلوبہ لوگ تھے باقی سب معصوم افراد موت کے بے رحم پنجوں میں جکڑے گئے۔ 5 ہزار عساکر اور 35 ہزار سویلین اس نامُراد جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں ان میں سے اکثر ڈرون حملوں کے ردعمل میں پروا ن چڑھنے والے خودکش بمباروں کے اشتعال کی نذر ہوئے۔ پاکستان کی طرف سے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے ردعمل میں نیٹو سپلائی بند کی گئی تو ایک اُمید کی شمع جلتی محسوس ہوئی کہ اب اس خوفناک جنگ سے چھٹکارا ممکن ہے جس کے سائے موت بن کر ہر پاکستانی کے سر پر منڈلا رہے تھے لیکن اب وہ اُمید دم توڑ گئی ہے اور اُمید کی شمع بُجھا چاہتی ہے۔ امریکہ سے بھی بڑھ کر ہماری قیادتیں سپلائی بحالی کے اعلان کے لئے بے قرار نظر آتی ہیں --- ہاں اعلان کے لئے، عملی طور پر تو سپلائی بحال ہو چکی ہے۔ اعلان قوم کے اشتعال‘ اُبال اور اپنے زوال سے بچنے کے لئے نہیں کیا جا رہا۔ اس کے باوجود بھی اُمید کی جانی چاہئے کہ طیب اردگان کی باتوں، ان کے کردار اور جراتِ اظہار کا ہمارے حکمران پر اثر ہوا ہو گا۔ زرداری صاحب امریکہ سے واپس تشریف لائیں گے تو پوری قیادت مل بیٹھ کر طاقت ور ہمیشہ درست کے فارمولے کو غلط ثابت کرنے کا کوئی لائحہ عمل اپنائے گی۔ خدا نہ کرے کہ طیب اردگان کا دورہ‘ ان کے مشورے اور کہا سُنا بھینس کے آگے بین ثابت ہو۔


No comments:

Post a Comment