ماں وہ نعمت اور عظمت ہے جس کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں۔ ماں اولاد کے لئے گلاب کی خوشبو‘ پیاس میں ساگر، قدم قدم کی راہبر اور اس کے سوا کیا کچھ نہیں! سب کچھ....
پھولوں کی خوشبو بہاروں کی برسات ماں ہی تو ہے
مہک رہی ہے جس سے میری کائنات ماں ہی تو ہے
سچی ہیں جس کی محبتیں سچی ہیں جس کی چاہتیں
سچے ہیں جس کے پیار کے جذبات ماں ہی تو ہے
جن کے سر سے ماں ا ±ٹھ گئی ان کا سب کچھ ا ±جڑ گیا۔ دنیا تاریک ہو گئی۔ ماں اور خدا کے درمیان رابطہ ٹوٹا تو انسان کو وہ بوجھ خود اٹھانا پڑا جو ماں کی دعاﺅں نے سنبھال رکھا تھا
حضرت موسٰی کی والدہ کا انتقال ہوا۔ پیغمبر خدا سے ہمکلام ہونے طور پر تشریف لے گئے رب جل جلال نے فرمایا موسٰی! اب ذرا سنبھل کے آنا۔ اب وہ ہستی دنیا میں نہیں رہی جو تمہارے یہاں آنے پر سجدے میں ہم سے دعاگو رہتی تھی ”اے سب جہانوں کے مالک میرے بیٹے سے کوئی چوک ہو جائے تو اسے معاف کر دینا“۔
آج مدر ڈے منایا جا رہا ہے۔ یوں تو ہر دن اور لمحہ ماں کا ہے۔ ماں پر جان نچھاور۔ جس نے یہ دن منانے کی رسم ڈالی اچھا کیا۔ چلو اس بہانے کچھ لوگوں کو ماں کی یاد آ جاتی ہے۔ اس سے محبت کے جذبات میں مزید وارفتگی آتی ہے۔ مدر ڈے ایک ماں کا دن نہیں ماﺅں کا دن ہے۔ تمام ماﺅں کا دن۔ آج آپ جس ہستی کے لئے پھول لا رہے ہیں اس کی قدم بوسی کر رہے اس کی بھی ماں کا دن ہے۔ ہر ذی شعور کی ماں کا دن۔ باپ اور دادا کی بھی ماں کا دن۔ ایک گھر میں ایک ہی چھت تلے کئی ماﺅں کا دن۔ باپ کا دن منائیں گے تو باپ اپنی ماں کا دن کب منائے گا۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ ہیں۔ وہ دنیا کے آدھے تفکرات سے آزاد ہیں۔ ماں کا سایہ نہیں رہتا تو کڑی دھوپ کا احساس ہوتا ہے
اے دوست ماں کے سائے کی ناقدری نہ کر
دھوپ کاٹے گی بہت جب شجر کٹ جائے گا
ماں کی ایک رات کا بھی بدلہ نہیں دیا جا سکتا۔ جب سردیوں کی رات میں وہ کئی بار بھیگتی بچے کو سنبھالتی اور بغیر کہے دودھ پلاتی ہے۔ جن کی مائیں ہیں وہ ان کی خدمت کریں جن کی چھوڑ کر جا چکی ہیں وہ ان کی بخشش کی دعا کریں
ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
دین حنیف نے ماں کے قدموں تلے جنت قرار دے کر جنم دینے والی ہستی کا مقام معراج مقرر فرما دیا ہے.... ایک قابل غور نقطہ ہے۔ ایک ماں یہ ہے جس نے جنم دیا اور پرورش کی۔ ایک ماں وہ ہے جس نے تحفظ دیا‘ شناخت دی‘ دنیا میں نام دیا‘ مقام دیا۔۔۔ وہ ہے دھرتی ماں‘ مادر وطن.... اس کا احترام‘ حفاظت اور اس سے محبت بھی جنم دینے والی ماں کی طرح فرض ہے۔ وطن عزیز میں کونسی نعمت نہیں ہے؟ یہ بھی سچ ہے کہ وسائل کا ناجائز اور بے جا استعمال ہو رہا ہے۔ کچھ خاندان کسی بھی وجہ سے بہت آگے چلے گئے۔ کئی سفید پوش کچھ غربت کی لکیر پر اور بہت سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ آزادی کو سہولتوں کی فراوانی سے نہیں ناپا جا سکتا۔ کتنی بڑی نعمت ہے آزادی‘ اپنا وطن‘ یہی ہر نعمت اور ہر عظمت سے بڑھ کر ہے۔ بھارت بھارت نہیں‘ ہندوستان ہے‘ ہندو ¶ں کے رہنے کی جگہ‘ وہاں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حالت قابل رحم ہے۔ پاکستان کے اکثر گھروں میں کیبل پر انڈین پروگرام دیکھے جاتے ہیں۔ دکانوں پر‘ بسوں میں ہوٹلوں میں انڈین گانے بجتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں ممکن ہی نہیں کہ کہیں بھی‘ کسی بھی جگہ پاکستانی گلوکاروں‘ فنکاروں اور کھلاڑیوں کی تصویر آویزاں ہوں۔ ارب پتی کاروباری مسلمان اپنی گاڑی یا کاروبار کی جگہ پر تلاوت کلام پاک کی ریکارڈنگ اونچی آواز میں نہیں لگا سکتا۔ ایسا کرے گا تو دہشت گرد ہندو تنظیمیں اسی روز آگ لگا دیں گی۔ بہت سے مغربی ممالک میں نقاب اوڑھنے اور داڑھی رکھنے پر پابندی ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی بھوکے پیٹ سوتا ہے تو اس میں دوسروں کا قصور ہو سکتا ہے اپنا بھی یقیناً دوش ہے۔ کسی سیانے نے کہا تھا انسان غریب پیدا ہوتا ہے تو اس کا قصور نہیں۔ غریب مرتا ہے تو اس کا قصور ہے۔ صحت مند اور تندرست انسان غربت کی چکی میں پسے تو سمجھ لیجئے وہ کام چور ہے۔ محنت سے روزی کے حصول کی کوئی حد مقرر نہیں اور پھر پورے پاکستان میں روزی بکھری ہوئی ہے۔ اسے چننے کے لئے معمولی سی دانش و عقل کی ضرورت ہے۔ آئیے مدر ڈے منانے کے ساتھ ساتھ دھرتی ماں کو خوب سے خوب تر اور خوبصورت ترین بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس نے ہمیں سب کچھ دیا۔ وہ کچھ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور وہ کچھ بھی جس کا ہمیں احساس بھی نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment