About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, April 29, 2012

آنچل میں عافیت



اتوار ، 29 اپریل ، 2012

آنچل میں عافیت
فضل حسین اعوانـ 13سپریم کورٹ کی طرف سے آدھ منٹ کی سزائے قید سنائے جانے اور یوسف رضا گیلانی کے یہ سزا بھگتنے کے بعد ان کی وزارتِ عظمیٰ تنے ہوئے رسے پر گیند لڑھکائے جانے کے مصداق ہے۔ رسے پر لڑھکتی گیند کب تک اور کتنا سفر جاری رکھتی ہے؟ فیصلے سے چند روز قبل گیلانی صاحب نے ٹی وی پر کہا تھا کہ ان کو سزا ہوئی تو وہ نہ صرف وزیراعظم نہیں رہیں گے بلکہ پارلیمنٹ کے رکن بھی نہیں رہیں گے۔ 26 اپریل 2012ءکو فیصلہ ان کے خلاف آیا، وہ ملزم سے مجرم بن گئے۔ کیا وہ ہتھکڑیوں کی زینت اور جیل کی ذلت کو ہی سزا سمجھتے ہیں؟ سپریم کورٹ نے شاید وزارتِ عظمیٰ کے وقار کے پیش نظر ان کو علامتی سزا سنائی ورنہ جو کچھ وہ عدلیہ کے خلاف کہتے رہے عام آدمی ایسا کرتا اور ہٹ دھرمی کا بھی مظاہرہ کرتا تو زیادہ سے زیادہ سزا کا مستوجب ٹھہرتا۔ آئینی، قانونی، اخلاقی اور اصولی طور پر فیصلے کے فوری بعد گیلانی صاحب کو اپنے قول کے مطابق وزراتِ عظمیٰ سے الگ ہو جانا چاہئے تھا۔ استعفیٰ کی ضرورت اس لئے نہیں تھی کہ آئین کے آرٹیکل 63 جی ون کے تحت وزراتِ عظمیٰ کے عہدے اور پارلیمنٹ کی نشست سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ پانچ سال تک الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے۔ پانچ سال بعد الیکشن لڑنے کی سہولت بھی ان کو 18ویں ترمیم کی وجہ سے حاصل ہوئی ورنہ تو توہینِ عدالت پر زندگی بھر کی نااہلیت مقدر میں لکھی جاتی تھی۔ 
پوری دنیا میں کسی ملک کے چیف ایگزیکٹو کو دی جانے والی سزا کا یہ منفرد واقعہ ہے اس کی مثال دی جایا کرے گی۔ اس کے ساتھ یوسف رضا گیلانی کا بعد از سزا، کردار اور ردعمل بھی موضوع بحث رہے گا۔ ان کے وکیل اور حکومتی حمایتی ماہرینِ قانون، سزا اور گیلانی صاحب کی نااہلیت سے انکاری نہیں، وہ کہتے ہیں کہ فیصلہ سپیکر قومی اسمبلی کے پاس جائے گا، ان کی طرف سے ایک مہینے کے اندر الیکشن کمشن کو سمری بھجوائی جائے گی۔الیکشن کمشن کے پاس بھی مزید ایک ماہ کا وقت ہے کہ وہ نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے جبکہ گیلانی صاحب نے قومی اسمبلی سے 27 اپریل کو خطاب کے دوران ایک نئی لائن لی، سپیکر کو ایک منفرد راہ دکھائی اور واضح کیا کہ وہ 18 کروڑ عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم ہیں ان کو سپیکر کے علاوہ کوئی نااہل قرار نہیں دے سکتا۔ گویا ان کی نظر میں آئین کی کوئی حیثیت ہے نہ عدلیہ کے فیصلوں کی۔ عدالتی فیصلوں کی تذلیل و تضحیک تو حکومت کئی سال سے کر رہی ہے لیکن توہینِ عدالت کیس میں سزا پانے اور بھگتنے کی جو تشریح گیلانی صاحب کر رہے ہیں اس کی نظیر کبھی سُننے اور دیکھنے میں نہیں آئی۔ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا اختیار ہے۔ وزیراعظم کو وہ بھی جو اب آئینی طور پر وزیراعظم نہیں رہے عدالتی فیصلوں کی من مانی تشریح کا اختیار یا حق آئین کے کس آرٹیکل میں دیا گیا ہے؟ سپریم کورٹ کی تشریح اور یوسف رضا گیلانی کی تشریح میں اتنا ہی فرق ہے جتنا پازیب اور پایل میں --- جتنا کاجل اور کوئلے میں۔ سید یوسف رضا گیلانی کے حامی ماہرینِ قانون ان کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت دو ماہ تک لے گئے۔ گیلانی صاحب شاید آئینی مدت پورے کرنے کے بعد نگران وزیراعظم بننے کا بھی منصوبہ رکھتے ہیں اسی لئے انہوں نے آنچل کو محفوظ قلعہ، مورچہ اور ڈھال بنانے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر دوپٹے میں پناہ لے لی کہ سپیکر کوئی پوسٹ آفس نہیں --- وہ اپنی عدالت لگائیں --- سپیکر کی لگی عدالت اپنی پارٹی کے بڑے کی خواہش کے برعکس کیسے فیصلہ دے گی؟ گیلانی فوج اور عدلیہ کے مقابلے میں ہمیشہ پارلیمینٹ کی سُپر میسی کی بات کرتے ہیں، اب تک سامنے آنے والے ان کے قول اور کردار سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک سپریم صرف اور صرف آصف زرداری کی ذات ہے۔ وہی ان کے لئے آئین، قانون، اصول، ضابطہ، حلف اور پیر و مرشد ہیں۔ 
قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران گیلانی باوے نے علامہ اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا 
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں 
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں 
قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے‘ شفاف اور پاکیزہ پانی کے قطرے قطرے سے --- گندگی کے قطروں سے دریا نہیں گندا نالہ بنتا ہے۔ ایک ایک ستارے سے آسمان جگمگاتا اور ستاروں کے جھرمٹ سے کاہ کشاں بنتی ہے۔ ادھار کے روغن سے جلائے گئے چراغ دمک سکتے ہیں نہ ایسے لاکھوں چراغ کاہ کشاں بن سکتے ہیں۔ قوم، ملت باصفا افراد سے تشکیل پاتی ہے، حرام کے لقموں سے پرورش پانے والے اجسام سے نہیں۔ آج عام آدمی کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ موجودہ حکمران اپنی موجودہ پالیسیوں کو فروغ دیتے رہے تو ان کے نعرے ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا“ کی طرز، ہر گھر سے کنگلا نکلے گا‘ ہر گھر سے منگتا نکلے گا، ہر گھر سے بھوکا نکلے گا اور بعید نہیں ہر گھر سے مُردہ نکلے گا۔ 
سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کے لئے قوم کا سپریم کورٹ کے شانہ بشانہ ہونا ضروری ہے، پارلیمنٹ میں موجود سیاستدانوں سے تو ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ اتحادی تو حکومت اور گیلانی کے غیر آئینی اقدامات کے ساتھ ہیں اپوزیشن بھی کوئی پیچھے نہیں۔ چودھری نثار علی خان نے کہا تھا ”دیکھیں گے غیر آئینی وزیراعظم پارلیمنٹ میں کیسے داخل ہوتا ہے“ پھر گیلانی پارلیمنٹ ہا ¶س گئے تو چودھری نثار کھسک چکے تھے۔ گیلانی نے بڑے ولولے سے خطاب کیا اس سے قبل ن لیگ اسمبلی سے اُٹھ کر باہر چلی آئی۔ پھر چودھری بولے وزیراعظم چھپ کر ایوان میں آئے۔ ایسی فضا اور گزشتہ چار سالہ جمہوری دور کا تجزیہ کیا جائے تو آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف دونوں کو نورا کہہ دیا جائے تو بتائیے اس سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے؟ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کے لئے فوری اور بھرپور تحریک نہ چلائی گئی تو فوج کو یہ ناخوشگوار فریضہ انجام دینے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ بہرحال ہم ملتانی پیر جی کو مان گئے ہیں۔ ان کے وکیل محترم نے شکست تسلیم کر لی پیر جی ڈٹے ہوئے ہیں!

No comments:

Post a Comment