، 21 اپریل ، 2012
کیا یہ اقبال و قائد کا پاکستان ہے؟
فضل حسین اعوان
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلمانانِ ہند کیلئے الگ وطن کی تصویر کشی کی جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے رنگ بھرا۔ کیا یہ ویسا ہی پاکستان ہے جیسا مفکر پاکستان اور معمار پاکستان چاہتے تھے؟ نہیںہرگز ایسا نہیں ہے۔قائداعظم نے تمام اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر فرائض ادا کرنے کی تلقین کی تھی۔بالخصوص قائداعظم نے فوج کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائیں تھیں۔ اس پرچند سر پھرے جرنیلوں نے کس طرح عمل کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے 65سال ابھی مکمل نہیںہوئے۔اس دوران قوم کو 33سال جو آدھے سے زیادہ عرصہ ہے فوجی حکمرانوں کو بھگتنا پڑا۔ملاحظہ فرمائیے قائداعظم نے کیا کہا اور جرنیلوں نے کیا کیا۔ 14جون 1948 کو قائداعظم فوجی قیادت کی دعوت پر زیرتربیت افسران سے خطاب کرنے اسٹاف کالج کوئٹہ تشریف لے گئے۔نہ جانے قائداعظم کس بات پر دل گرفتہ تھے۔انہوں نے 6سات منٹ تقریر کی۔ جس میںیہ بھی فرمایا: ”....مجھے یہ بات کہنے کی تحریک اس لئے ہوئی ہے کہ ایک دو نہایت اعلیٰ افسروں کے ساتھ گفتگو کے دوران مجھے یہ معلوم ہوا کہ افواج پاکستان نے جو حلف اٹھایا ہے،انہیں اس حلف کے تقاضوں کا علم نہیں ہے۔بلا شبہ حلف تو الفاظ کی ایک ظاہر ی شکل و صورت ہوتی ہے، جو چیز زیادہ اہم ہے وہ ہے صحیح جذبہ اور اس کی روح۔ لیکن آپ کے معاملے میں ظاہر ی شکل و صورت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں اس موقع پر آپ کے حافظے کو تازہ کرنے کیلئے مقررہ حلف کے الفاظ پڑھتا ہوں“۔ اس کے بعد قائداعظم نے فوج کا حلف لفظ بہ لفظ پڑھا.... ” جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ اصل بات جذبہ ہے۔ میں آپ کو بتاناچاہتا ہوں کہ جب آپ یہ الفاظ کہتے ہیں کہ ” میں مملکت کے آئین کا وفادار ہوں گا تو آپ اس آئین کا مطالعہ بھی کریں جو پاکستان میں نافذ العمل ہے اور اس آئین کے حقیقی قانونی تقاضوں کوبھی سمجھیں“۔
علامہ اقبالؒ نے موقع بموقع خود داری اور غیرت کا درس دیا۔یہ دونوں آج حکمرانوںکی حد تک سرے سے ناپید ہیں۔ ماضی بعید کو کریدنے کی ضرورت نہیں۔ ماضی قریب کو دیکھئے۔ موجودہ حکمران امریکی جنگ میں مشرف کی مکمل جاں نشینی کا کردارادا کر رہے ہیں۔ بعض معاملات میں تو مشرف سے بھی بڑھ کر۔امریکہ جو کہتا ہے اس پر سر تسلیمِ خم کرلینے کو فرض سمجھا جاتا ہے۔ 26 نومبر 2011ءکو سلالہ چیک پوسٹ پر جارحیت کے جواب میں نیٹو سپلائی بند کی گئی۔ فوج، حکومت اور عوام نیٹو حملے پر بڑے جذباتی تھے لیکن آج حکومت سپلائی کی بحالی کیلئے بے چین ہے۔ اسے فوج کی رائے کا احترام ہے نہ عوامی امنگوں کی پروا۔ بلاشبہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔اس میں کوئی ملک الگ تھلگ رہ کر ترقی و خوشحالی کی منزلیں سر نہیں کرسکتا لیکن اپنے وقار، حمیت غیرت خود داری اور خود مختاری کی قیمت پر تو ہرگز ایسا نہیں ہوناچاہئے۔جو ہمارے ہاں ہورہا ہے۔امریکی جاسوس پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں۔ ان پر قابو پانا تو کجا، ہماری حکومت کو تو ان کے کام اور مقام قیام کا ہی علم نہیں۔ اوپر سے امریکی کہتے ہیں بتائیں گے بھی نہیں۔ اب 7 ہزار ”جاسوسوں“ کو ٹھہرانے کیلئے ایسا بلندوبالا سفارتخانہ تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی جہاں سے پورا اسلام آباد انکی نظروں میں ہوگا۔ پہلے اسے حملوں کیلئے پاکستانی انٹیلی جنس کی مدد درکار تھی۔اب سی آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پاکستان میں ایسا نٹ ورک قائم کرلیا ہے کہ اب اسے نشاندہی کیلئے کسی پاکستانی ایجنسی کی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔ خودداری اور خود مختاری کیا اسی کا نام ہے؟ یہ سبق اور درس اقبال اور قائد نے تو نہیں دیا تھا۔ نجانے حکمرانوں کا کون قائد ہے کون رہبر ورہنما اور کون آئیڈیل ہے جس کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا ان کا رہبر رہنما لیڈر اور آئیڈیل صرف دھن دولت ہے؟
نظر تو ایسا ہی آتا ہے۔ ایک طرف بیرونی مداخلت سے قومی سلامتی و سالمیت مجروح ہورہی ہے، دوسری طرف اندرونی طور پر معاملات بھی تکلیف دہ ہیں۔ کرپشن کا ایک سونامی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اعلیٰ سطح پر کرپشن بنیادوں تک سرطان کی طرح پھیل گئی۔ کروڑوں اربوں کی نہیں کھربوں کی لوٹ مار ہورہی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 4 سال میں 94 ارب ڈالر لوٹے جانے کی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ پر یقین اس لئے کیا جاسکتا ہے کہ حکمران این آر او کیس کے فیصلے پر عملدرآمد سے واضح انکاری ہیں، یہ بھی کرپشن کیس ہے۔ رینٹل پاور منصوبوں میں سپریم کورٹ نے کھربوں روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی اور فیصلے میں جن کو مجرم ٹھہرایا، انکو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے بجائے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا گیا۔ ملک میں بجلی، گیس کی قلت، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے محابا اضافہ کے باعث بھوک ناچ رہی ہے، ننگ اور افلاس ہے، حکومتی سطح پر عوامی ریلیف کیلئے کوئی کوشش، کاوش اور عزم و ارادہ نظر نہیں آتا۔ عدلیہ ایک فورم ہے جو بدعملی، بدنظمی اور کرپشن کا احتساب کرسکتی ہے۔ حکومت خم ٹھونک کر اسکے مدمقابل آگئی ہے۔ اسکے اکثر فیصلوں خصوصاً کرپشن اور کرپٹ عناصر پر ہاتھ ڈالنے کے معاملات کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ جرنیلوں نے آدھے سے زیادہ عرصہ پاکستان میں آمریت پھیلائے رکھی۔ آج جرنیل اگر جمہوریت اور جمہوری حکومت کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو حکومت انکی بھی تذلیل کرکے شاید شہید جمہوریت بننا چاہتی ہے۔ وزیراعظم گیلانی نے سیکرٹری دفاع خالد لودھی کو برطرف کیا۔ چھوٹا بیٹا علی موسیٰ گیلانی کیمیکل کوٹہ کیس کی زد میں آیا تو اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل شکیل کو انکے عہدے سے ہٹا دیا۔ اب علی موسیٰ سمیت متعدد ملزموں پر فردجرم عائد ہوئی ہے تو وزیراعظم تحقیقات پر پر مامور بریگیڈئر فہیم کو باقاعدہ دھمکیاں دے رہے ہیں، یہ انکے شایان شان نہیں۔ اقبال و قائد تو ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں نفاق ہو، انتشار ہو، کسی طبقہ کی من مانی اور لوٹ مار کی حکمرانی ہو، وہ تو پرامن، خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان چاہتے تھے جس میں انصاف کی فراوانی ہو اور پاکستان اسلامی اور فلاحی مملکت بنتا۔ آئیے ہم جہاں بھی ہیں، جو کچھ بھی ہیں اپنی حیثیت میں جہاں تک بھی ممکن ہے، ملک خدادادِ کو ایسا پاکستان بنانے کی کوشش کریں جیسا اقبال اور قائد چاہتے تھے۔
No comments:
Post a Comment