جمعرات ، 12 اپریل ، 2012
ستم رسیدہ
فضل حسین اعوان ـ 19 گھنٹے 59 منٹ پہلے شائع کی گئی
صدر جناب آصف علی زرداری منت پوری کرنے بھارت گئے۔ منموہن سے ملے۔خواجہ اجمیر کی درگاہ پر حاضری دی،چادر چڑھائی اور ایک ملین ڈالر نذرانے کا اعلان کیا۔یہ نذرانہ ادا کردیا گیا یا نہیں؟ اس بارے میںکچھ نہیں بتایا گیا۔ایک ملین یعنی دس لاکھ ڈالر نذرانے کے اعلان پر اعتراض،احتجاج کرنیوالے یہ سوچ لیں کہ صدر صاحب پاکستان میں بھی بہت سے اعلان کرچکے ہیں مثلاً روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی کا اعلان، عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات دلانے کا اعلان،عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل کا اعلان۔صدر کے دورے کو نشانہ تنقید بنانے والے صرف نذرانے کے اعلان پر یقین کئے بیٹھے ہیں۔ ویسے بھی یہ صدر صاحب کیلئے کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ان کے اپنے اثاثوں کی مالیت دس بلین ڈالر کے قریب ہے۔ اس میں سے ایک ملین نذرانہ کیا معنی رکھتا ہے یہ ایسے ہی جیسے کوئی کسان ایک ایکڑ کی فصل سے مونگ پھلی کا ایک دانہ دان کردے۔زرداری صاحب کے کئی بدخواہ کہتے ہیں کہ چڑھاوا قومی خزانے سے چڑھایا گیا۔ یہ بھی کوئی غلط کام نہیں ہے آخر عوام نے پانچ سال کیلئے ان کی پارٹی کو منتخب کیا ہے فی الحال پانچ سال کیلئے پاکستان ان کا ہے جو چاہیں کریں ۔ماشاءاللہ کر بھی رہے ہیں۔ون ملین نذرانے سے میمو گیٹ سے منسلک ون ملین کی داستان یاد آجاتی ہے۔اس کا دیگر کوئی پس منظر نہیں محض وہ ون ملین اور یہ نذرانہ کے ون ملین میں ون ملین کی قدر مشترک ہے۔میڈیا میں کسی نے اڑائی کہ منصور اعجاز سے میمو مولن تک پہنچانے کی صورت میں اس سے 1ملین ادائیگی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ میمو خوش اسلوبی سے پہنچانے پر حقانی نے ایمانداری سے ادائیگی کردی۔منصور کو نہیں کسی اور کو۔منصور اعجاز اپنی اجرت کی وصولی کیلئے گئے تو حقانی کے یار نے 2لاکھ ڈالر اس کے سامنے رکھ دئیے۔باقی 8لاکھ کے تقاضے پر کہا وہ ہمارا کمشن ہے.... کمشن رکھنے والی یہ ہستی صدر صاحب کی نہیں ہوسکتی کمشنوں کے حوالے سے ان کا اپنے وزیراعظم کی طرح دامن ایسا پاک و صاف ہے کہ ....ع
دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضو کریں
نذرانے اور چڑھاوے میں کمشن کی کوئی بات کرے تو گناہ گار اور پاپی نہیں تو کیا ہوگا۔وہاں منت کیا مانی،اس کا بھی سوائے صدر اور بلاول کے کسی کو علم نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حاکم علی زرداری کے فرزندِ ارجمند نے جس محنت اور خون پسینے کی کمائی سے اتنی دولت اور جائیداد بنائی اس کو کام میں لانے کیلئے ویسے تو ہزاروں سال زندہ رہنے کی ضرورت ہے انہوں نے کم از کم ڈیڑھ دو سو سال کی زندگی تو مانگی ہوگی۔شاید آدھی مدت کیلئے صدارت بھی۔ غالباً اگلا دورہ منت پوری ہونے پر فرمائیں۔خدا صدر صاحب کی ہر خواہش پوری فرمائے ساتھ یہ بھی دعا ہے کہ وہ اب تمام مصلحتوں کو ایک طرف رکھ کر کچھ قوم و ملک کیلئے کرنے کی کوشش بھی کریں۔ وہ صرف کرپشن پر قابو پالیں تو تمام مسائل دور ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں وسائل کی ہرگز،ہرگز کمی نہیںان کو بروئے کار لائیں۔ ایماندار لوگوں کی ٹیم بنالیں تو مظلوم مقہور اور ستم رسیدہ طبقات ان کے دست و بازو بن جائیںگے۔ آج سب سے ستم رسیدہ تنخواہ دار طبقہ ہے۔وہ سرکاری ملازم ہویا غیر سرکاری یا بھٹے اور سائیکل ورکشاپ میں کام کرنے والا مزدور ،ان کی حالات زار کو دیکھیں،سمجھیں اور ان کے ریلیف کا حل تلاش کریں۔تنخواہ دار طبقے سے زیادہ ستم رسیدہ پنشنرز ہیںاور ان میں بھی بدحال اور پسے ہوئے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوشن OBI Eکے پنشنرز۔جن کی اس دور میں بھی پنشن تین ہزار روپے ماہوار ہے ۔ان کو پنشن کی ادائیگی قومی خزانے سے نہیں ان کی اپنی ادائیگیوں سے ہوتی ہے۔یہ سول اداروں کے ریٹائرڈ لوگ ہیں۔آج کے قانون کے مطابق جس انڈسٹری،ادارے یا دکان میں 5 سے زائد ملازم ہوں ان کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے مالک کو OBI E میں جمع کرانے کا حکم ہے۔EOBI اس رقم سے مالدار بن چکا ہے۔اس کے پاس اربوں روپے نقدی اور کھربوں کے اثاثوں اور کاروبار کی صورت میں موجود ہیں۔ جن لوگوں کے دم قدم سے یہ ادارہ معرض وجود میں آیا مضبوط ہوا اور چل رہا ہے ان لوگوں کو ہی بری طرح سے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ مزدور آج اپنی ادائیگی بند کردیں تو جن افسروں کی گردنوں میں سریا اور وہ جس آسمانِ تکبر و تفاخر اور نخوت پر بیٹھے ہیں گردن کے بل زمین پر آگریں گے۔ستم یہ کہ ایک EOBI کا سربراہ 80 کروڑ روپے کا فراڈ کرکے ملک سے ہی بھاگ گیا ۔ اندازہ کیجئےEOBI کے عمر رسیدہ پنشنرز3 ہزار میں کیسے گزارہ کرتے ہوں گے۔ادویات اور بڑھاپے میں اچھی خوراک کے حوالے سے ان کی ضروریات عام آدمی سے زیادہ ہیں۔ ان کا تو خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔حکمرانوں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ اپنا دَھن دولت ان کے نام کردیں بلکہ ان ستم رسیدہ افراد کا ذرا سا کام کردیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے خون سے ملکی ترقی و خوشحالی کے دیپ جلاتے رہے ہیں۔ان کو حکومت کی طرف سے کوئی خصوصی مراعات نہیں دی جاتیں پنشن ان کی تنخواہوں سے کی گئی کٹوتی سے ادا کی جاتی ہے۔اس رقم سے ہی EOBI کی افسریاں چلتی،پھلتی پھولتی اور پلتی ہیں۔EOBI ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوشن، عمر رسیدہ افراد کے بینی فٹ کا کیسا ادارہ ہے کہ ان کی خبر ہی نہیں لیتا۔EOBI کے پنشنروں کی پنشن میں سالانہ اضافہ نہیں ہوتا۔صدر صاحب ان کی طرف نظر التفات فرمائیں،آئندہ بجٹ میں ان کی پنشن کم از کم دس ہزار کردیںتو ان کی مشکلات کم ہوسکتی ہیںساتھ ہر سال سرکاری پنشنرز کی طرح اضافہ بھی ہوتا رہے تو یہ لوگ زندگی کی گاڑی دھکیلتے رہیں گے اس سے خزانے پر قطعی اثر نہیں پڑے گا۔ افسروں کی موجیں بھی بدستور جاری رہیں گی۔دیگر پنشنرز خوشحال نہیں ہیں ان کی پنشن میں کم از کم 100فیصد ہو جائے تو وہ بھی کافی حد تک مطمئن ہو سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment