About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, April 10, 2012

......شہید کی جو موت ہے

منگل ، 10 اپریل ، 2012

شہید کی جو موت ہے....
فضل حسین اعوان ـ 19 گھنٹے 12 منٹ پہلے شائع کی گئی
برف سے ڈھکی سرزمین‘ پرسکون خطے‘ سیاچن کو محاذ جنگ میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور قبضے کے خبط نے ڈھالا۔ پاکستان کو اپنے دفاع میں مورچہ بندی کرنا پڑی۔ سیاچن میں پاکستان اور بھارت دشمن کے طور پر ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ بھارت نے 13 اپریل 1984ءکو پاکستان کے اس علاقے پر قبضہ کیا۔ پاک فوج میدان میں اتری تو بھارت کی پیش قدمی رکی اور اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی تاہم سینکڑوں مربع میل علاقہ اب بھی بھارت کے قبضے میں ہے۔ اس دشمن کے قبضے میں جس کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ جس کے ساتھ سالانہ سوا ارب ڈالر خسارے کی تجارت ہو رہی ہے۔ ایک طرف وہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ستم ڈھا کر ان کی نعشیں گرا رہا ہے۔ عزت مآب خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کبھی نہیں رکے۔ اقوام متحدہ بھی مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چیخ اٹھا ہے۔ دوسری طرف سیاچن میں بھارت کے ساتھ جنگ جاری ہے۔ تف ہے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے‘ اس کے ساتھ تجارت اور امن کی آشا کی خواہش پر۔سیاچن محاذ پر صرف وہی دشمن نہیں جس کے خلاف فوج صف آرا ہے‘ یہاں دشمن کو دیکھ کر خون خول اٹھتا ہے۔ یہاں سب سے بڑا دشمن بے رحم سرد موسم اور آسمان بھی ہے۔ یہ زمین بھی زمین نہیں۔ برف کا قلزم ہے۔ یہاں انسانی خون تو کیا سانسیں بھی جم جاتی ہیں۔ 1984ءکے بعد سے 5 ہزار بھارتی اور 3 ہزار پاکستانی فوجی ایک دوسرے کی فائرنگ اور بمباری سے نہیں موسمی بے رحمی اور علاقائی دشواریوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ معذور ہونے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ بھارتی سینا کی یہ ہلاکتیں اور پاکستانی سپوتوں کی شہادتیں برف پوش پہاڑوں میں بھارت کی دہکائی ہوئی آگ کے باعث ہوئی ہیں۔ ان میں اضافہ جاری ہے۔ 
بھارت کے سیاچن پر قبضے پر صدر جنرل محمد ضیاءالحق نے کہا تھا ”سیاچن میں تو گھاس بھی نہیں اگتی“ خدا کا شکر ہے کہ کسی نے سمجھا دیا کہ وطن عزیز کی ہر انچ کا تحفظ پاک فوج کی ذمہ داری ہے۔ شاید اس کے بعد ہی سیاچن میں پاک فوج کو اتار کر بھارت کی پیش قدمی روکی گئی۔ اگر جنرل ضیاءکی سوچ پروان چڑھ جاتی تو آج پورے برفیلے علاقے پر بھارت کا قبضہ ہوتا اور اس کی توسیع پسندی نہ جانے کہاں جا کر رکتی۔
گذشتہ دنوں پاک فوج کے 124 سپوت سیاچن میں برف کے ایک کلومیٹر قطر کے تودے تلے دب گئے۔ بتایا گیا ہے کہ اس تودے کی اونچائی یا بلندی 80 فٹ ہے۔ گویا ہماری سرحدوں کے نگہبانوں اور پاسبانوں کی میتوں تک رسائی کے لئے 80 فٹ برف کو ہٹانا پڑے گا۔ آج 60 گھنٹوں کے بعد بھی شہدا کی میتوں تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ بڑا مشکل مرحلہ اور لمحہ ہے۔ ریسکیو آپریشن میں بھی جانیں جانے کا اندیشہ ہے۔ آج پوری قوم اس سانحہ پر سوگوار ہے۔ مذکورہ سپوتوں نے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کا جذبہ و ولولہ لئے جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ یقیناً یہ ہماری قوم کے متفقہ اور غیر متنازعہ ہیروز ہیں۔ شاعر نے ایسے جانبازوں اور جانثاروں کے بارے میں ہی کہا ہے 
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰة ہے
قوم کی دعائیں فوج کے ساتھ ہیں۔ جو نامساعد حالات‘ آندھی و برسات کی پروا کئے بغیر برف کے طوفان اور آگ کے دریا میں بے خطر کود پڑتی ہے۔ سپہ سالار جنرل کیانی بھی اپنی مصروفیات چھوڑ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کے لئے برف پوش وادی میں چلے گئے۔ جس روز یہ سانحہ ہوا اسی روز جنرل کیانی نے تلہ جوگیاں رینج کے دورے کے دوران مشقیں دیکھیں اور اپنے خطاب میں کہا ”انتہا پسندی کے خلاف فوج کے عزم کو متزلزل نہیں کیا جا سکتا۔“ جنرل صاحب کا اشارہ اگر قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کی طرف ہے‘ یقیناً اسی طرف ہی ہے کیونکہ قبل ازیں بھی عسکری قیادت ایسا کہتی رہی ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف یہ جنگ امریکہ کے ایما پر لڑی جا رہی ہے۔ جس کو ہماری عسکری اور سیاسی قیادتیں اپنی جنگ قرار دیتی ہیں۔ اس جنگ میں 5 ہزار سے زائد پاک فوج کے سپوت بھی شہید ہوئے۔ یہ محاذ پر لڑتے ہوئے نہیں وطن عزیز کے اندر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یقیناً وہ ایک ڈسپلن کے تحت لڑتے ہوئے جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں۔ سیاچن‘ کارگل 65/71 اور 48ءکی بھارت کے خلاف جنگوں میں جان سے گزر جانے والے شہدا قوم کے غیر متنازعہ ہیروز ہیں۔ پاکستانی سپوت انتہا پسندی کی جنگ میں جو امریکہ کے ایما پر لڑی جا رہی ہے‘ شہید ہونے والے کیا پوری قوم کے غیر متنازعہ ہیرو ہیں؟ کم از کم وہ جن کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے وہ تو ان کو ایسا نہیں سمجھتے۔ ایک عوامی طبقہ بھی امریکہ کی جنگ میں لڑنے والوں کے بارے میں ”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“ کہنے سے کتراتا اور ہچکچاتا ہے۔ سپہ سالار فوج ایسی کسی مہم جوئی کا حصہ کیوں بنتے ہیں؟ جس میں شہید ہونے والوں کی قربانیوں کو قوم کا خواہ محدود ہی سہی کوئی بھی طبقہ متنازعہ تصور کرتا ہے۔


No comments:

Post a Comment