20-3-2012
مہران گیٹ.... فوج.... اور سازشیں
فضل حسین اعوان ـ 20 مارچ ، 2012
حیدر آباد میں پکا قلعہ آپریشن 1990ءمیں ہوا۔ اس پر نظریں رکھنے والے بھی آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے کے شیطانی ذہن کی داد بغیر نہیں رہ سکے۔ آپریشن کی ٹائمنگ ایسی تھی کہ وزیر اعظم آرمی چیف اور کور کمانڈر کراچی جنرل آصف نواز ملک میں موجود نہیں تھے۔ فوجی چھاﺅنیاں معمول کی مشقوں کے باعث خالی تھیں۔ ایسے میں پولیس پکا قلعہ پر چڑھ دوڑی ۔ بچوں اور خواتین تک کو بھی بے دردی سے قتل کیا گیا قرآن اٹھا کر ستم کا یہ سلسلہ بند کرنے کی درخواست کرنے والی خواتین کے سینے بھی چھلنی کر دیئے گئے۔ فوج کی ہائی کمان تک خبر پہنچی تو فوری طور پر فوجی کارروائی کا حکم دیا گیا لیکن حیدر آباد اور گرد و نواح میں فوج موجود ہی نہیں تھی۔ یونٹوں میں موجود ڈیوٹی دینے والوں کو اٹھا کر وہاں بھیجا گیا تو پولیس کو پسپا ہونا پڑا۔ محترمہ لندن سے لوٹیں تو پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمارے آئی جی نے بتایا ہے کہ پکا قلعہ میں اسلحہ موجود تھا۔ اسے برآمد کرنے کیلئے آپریشن کیا گیا۔ وہاں تک پہنچنے ہی والے تھے کہ فوج نے رکاوٹ ڈال دی ۔ پولیس واپس گئی تو فوج اسلحہ ٹرکوں میں ڈال کر لے گئی۔یہ اسلحہ واہ فیکٹری کا بنا ہوا تھا۔ اپنی وزیراعظم کی طرف سے یہ کہنے پر فوج کا سٹپٹانا لازم تھا۔ لندن سے واپسی پر محترمہ نے جذباتی انداز میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے ان (فوج) کو ریڈ لائن (یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے) کراس کرنے سے منع کیا تھا۔ ہماری نہیں مانی گئی۔ محترمہ نے بی بی سی کو انٹرویو کے دوران فخریہ انداز میں اعتراف کیا کہ خالصتان تحریک کے سرکردہ رہنماﺅں کی لسٹیں بھارت کو دی گئی ہیں۔ جن کو راجیو حکومت نے چن چن کر قتل کیا اور بھارت ٹوٹنے سے محفوظ رہا۔مزید یہ بھی سنئیے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں کشمیر کے حوالے سے بورڈ وغیرہ ہٹا دیئے گئے۔ اس وقت میڈیا میں یہ باتیں بھی آئیں کہ وزیر اعظم ہاﺅس کی الیکٹرانک سویپنگ بھارتی خفیہ ایجنسی را سے کرائی گئی۔ یہ پاکستانی ایجنسیوں اور خود پیپلز پارٹی کے حلقوں کے لئے پسندیدہ اقدام نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ا س کا مطالبہ راجیوگاندھی نے کیا ہو۔ پاکستانی ایجنسیوں کو لاتعلق تو کیا گیا لیکن بے بس نہیں کیا جا سکا۔ محترمہ اور راجیو کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ سننے میں آیا کہ اس کی ریکارڈنگ شام کو صدر اسحق خان کی میز پر تھی۔ اس میں راجیو کو ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کا یقین دلایا گیا تھا۔ کشمیر پر اس نے پاکستان کے ”واویلے “ کی بات کی تو بھی کہا گیا کہ ہم شور شرابا کرتے رہیں گے عملی طور پر کچھ نہیں ہو گا ۔ (دروغ برگردنِ راوی) ۔۔۔ جن ذمہ داروں کے سامنے یہ سب کچھ ہو وہ بھلا خاموش بیٹھیں گے؟ محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی برطرفی کی یہی اصل میں وجوہات بتائی اور گنوائی جاتی ہیں۔
1977ءمیں فیئر الیکشن بھی ہو جاتے تو ذوالفقار علی بھٹو یقینا جیت جاتے۔ 90ءمیں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ان کے جیتنے کا امکان تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدر اسحاق خان نے ہدایت کی کہ حکومت کا خاتمہ اس لئے نہیں کیا کہ دوبارہ اقتدار ان کو دے دیا جائے۔ انہوں نے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے آرمی چیف کی ذمہ داری لگائی۔ 14کروڑ جس جس کو بھی ملے وہ آئی ایس آئی نے نہیں ملٹری انٹیلی جنس نے تقسیم کئے۔ ستمبر 1990ءمیں جب یہ کھیل کھیلا جا رہا تھا آئی ایس آئی کے ڈی جی آئی جنرل (ر) کلو تھے۔ ان کو اس معاملے سے بے خبر رکھا گیا ۔ میجر جنرل اسد درانی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے ڈی جی تھے جو بعد ازاں ترقی پانے پر آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بنے تھے۔ رقوم کا لین دین اور زیادہ تر تقسیم سندھ میں ہوئی ان دنوں بریگیڈیئر حامد سعید اختر سندھ میں ایم آئی کے سربراہ تھے۔ وہ عدالت میں بلائے گئے ہیں نہ میڈیا میں سنائی اور دکھائی دیتے ہیں۔بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کی جو وجوہات صدر اسحق خان اور اسلم بیگ کے سامنے تھیں کیا ان کی موجودگی میں ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کا جواز بنتا ہے؟ ۔ یقینا جمہوریت بڑی محترم ہے لیکن ملک اس سے بھی زیادہ مقدم و مقدس ہے۔پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشیں اب بھی رکی نہیں ہیں۔ آج بھی دشمن قوتوں کی نظر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ہے۔ ایک بار پھر دہرا دیں چونکہ فوج ایٹمی پروگرام کی گارڈین اور کسٹوڈین ہے اس لئے آج بھی فوج کو کمزور کرنے کی نجس منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ جس میں اپنے بھی شامل ہیں۔ کیری لوگر بل اٹھائیے اس میں پاک فوج پر قدغنوں کی بات کی گئی۔ حسین حقانی کی کتاب
Between Mosque and Military بھی سامنے رکھئے۔ پورے کے پورے پیراگراف اس سے لئے گئے ہیں۔ بل حقانی نے تیار کیا یا ان کی معاونت لی گئی ۔ لیکن کس کے کہنے پر؟ اب میمو گیٹ کے مندرجات پر بھی ایک بار پھر نظر ڈالئے اس کی صداقت یا عدم صداقت واضح ہو جائے گی۔ پاکستان میں رائیٹسٹ ہمیشہ پاک فوج کے شانہ بشانہ رہے ہیں ۔اب مہران گیٹ کے ایک بار پھر سامنے آنے پر یہ لوگ فوج سے دور ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ کس کی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے؟ ۔ جس کی بھی ہو لیفٹسٹ البتہ اس پر قہقہہ بار ہیں ۔ یوں تو مہران گیٹ کا عدلیہ کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچنا مشکل نظر آتا ہے۔ اگر پہنچا تو یقیناً جہاں بہت سے چہروں سے نقاب اترے گا وہیں ایٹمی پروگرام کی کسٹوڈین فوج کی بدنامی ہو گی جس سے فوج کمزور تو ہو گی ہی مزید تنہا بھی ہو جائے گی۔ یہی پاکستان دشمنوں اور اس کے ہاتھوں میں کھیلنے والے اپنوں کی سازش ہے۔ موجودہ حالات میں فوج کو مضبوط کرنا ناگزیر ہے۔ مضبوط فوج ہو گی تو ملک مضبوط اور محفوظ و مامون رہے گا۔ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ جمہوریت نہ غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ۔ بھارت سے تجارت اور تعلقات فوج کا ایجنڈا کبھی نہیں رہا۔ آج تو پاکستان کے بدترین دشمن کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ محترمہ کے جس وژن سے رہنمائی لینے کی بات صدر اور وزیر اعظم کر رہے ہیں اگر وژن وہی ہے جس کے باعث 1990ءمیں ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو امریکہ کے ساتھ دوستی، ایبٹ آباد آپریشن کو عظیم کامیابی قرار دینے، نیٹو سپلائی کی بحالی کیلئے بے قراری اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے جیسے اقدامات کی آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔آخر میں خلیل ملک مرحوم کے خبریں میں ”آئی ایس آئی کا جرم یا نیکی“ کے عنوان سے 12نومبر 1997ءکو شائع ہونے والے کالم کے اس اقتبا س پر نظر ڈال لیں جس سے میرا یا آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام ہے کہ اس نے اس ”مہربان“ خاندان کا اقتدار روکنے کیلئے چودہ کروڑ روپے صرف کئے۔کھیت میں گھس آنے والے سوّر کو ہلاک کرنے کیلئے گولی چلائیں تو اسے قتل نہیں کہتے۔ سانپ کو مار دیں تو یہ بے رحمی حیوانات نہیں ہے، انسانیت کی خدمت ہے، جس خاندان کی وجہ سے پاکستان دو ٹکڑے ہوا ہو، پاکستانی فوج نے سر میں جوتے کھائے ہوں، جس کی وجہ سے بھارت ٹکڑے ہونے سے بچا ہوا اور سکھوں کا قومی قتل عام ہو، جس کی وجہ سے کشمیری مسلمان پامال ہو گئے ہوں اور قتل عام کا سامنا کر رہے ہوں، اس خاندان کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے چودہ کروڑ روپے صرف کرنا گناہ نہیں۔ عین ثواب ہے۔ (ختم شد)
No comments:
Post a Comment