جمعرات ، 19 اپریل ، 2012
فضل حسین اعوان ـ
ہم 18 کروڑ پاکستانی قوم نہ سہی‘ عوام تو ہیں۔ گروہوں میں بٹے‘ گروپوں میں تقسیم‘ علاقائیت‘ لسانیت اور صوبائیت کا شکار‘ قومی معاملات سے لاتعلقی کا شہکار‘ خود کو پرم‘ پرماتما اور دوسروں سے افضل و اعلیٰ سمجھنے کے زعم میں مبتلا۔ کسی سانحہ و المیہ کی صورت میں‘ بیرونی قوتوں کی جارحیت کا امکان‘ پاکستان کو بربادیوں کی طرف دھکیلنے کا سامان دیکھ کر کسی بھی لمحے 18کروڑ بے سمت گروہ اور گروپ ایک قوم بن سکتے ہیں۔ ایسا کئی بار ہو بھی چکا ہے۔ بھارت کے ساتھ لڑی جACانے والی 65ءکی جنگ‘ 2005ءکا زلزلہ اور 26 نومبر 2011ءکو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کی بمباری‘ ایسے واقعات ہیں جن پر تمام پاکستانی ایک ہی صف میں کھڑے سیسہ پلائی دیوار نظر آتے تھے۔ 65ءمیں ہماری فوج نے اسلحہ کی کمی اور دشمن کے مقابلے میں کئی گنا کم تعداد کے باوجود لاہور میں ناشتہ کرنے کی آرزو لئے دشمن کو ناک چنے چبوا دئیے تھے۔ اس لئے کہ مشرقی و مغربی پاکستان کا ہر شہری فوج کی پشت پر ثابت قدمی اور نورِ ایمان کی قوت سے کھڑا تھا۔ قوم ساتھ ہو تو فوج کسی بھی قوت سے ٹکرا کر کامیابی و کامرانی کی منزلیں طے کر لیتی ہے۔ جدید ترین اسلحہ سے لیس‘ تعداد کے حوالے سے برتر افواج قوم اور عوام کے ساتھ و اعتماد کے بغیر کوئی جنگ جیت سکتی ہے نہ دشمن پر فتح حاصل کر سکتی ہے۔ اگر فوج اپنے ہی عوام کے ساتھ برسرپیکار ہو اپنے ہی لوگوں کے ساتھ جنگ کرنا اور لڑنا شروع کر دے اول تو اس سے جیت نہیں سکتی۔ جیت بھی جائے تو یہ جیت نہیں ہوتی۔ 71ءمیں حالات جو بھی ہوں‘ جیسے بھی بگڑے ہوں۔ دشمن نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ جس نے پاک فوج اور پاکستانی شہریوں میں بدگمانی و بداعتمادی کی دراڑ ڈالی‘ جو ہمارے شرابی جرنیلوں اور حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی نالائقی نااہلی کے باعث نفرت کی خلیج میں بدل گئی۔ جب بھارت کو یقین ہو گیا کہ مشرقی پاکستان میں فوج اور عوام کا قبلہ الگ الگ ہے۔ تو دشمن نے حملہ کر دیا۔ فوج کی پشت عوامی حمایت سے خالی تھی۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ میں ہم پاکستانیوں کے لئے سیاہ باب کی صورت میں موجود ہے۔
آج ایک بار پھر ہم نے اپنی بدقسمتی کو آواز دی ہے۔ اپنے ہرے بھرے آنگن میں انگارے بکھیر لئے ہیں۔ فوجی آمر نے پاک فوج کو امریکہ کی جنگ کا حصہ بنا دیا۔ اس آمر کے اقتدار کی موت کو بھی 4 سال ہو گئے لیکن وہ جنگ ہنوز جاری ہے۔ کس کے خلاف؟ اپنے ہی لوگوں کے خلاف۔ قوم کی حمایت کے بغیر تو دشمن سے بھی جنگ نہیں جیتی جا سکتی تو پھر قوم کے خلاف‘ عوام کے خلاف جنگ میں کیسے فتح ہو سکتی ہے؟ باالفرض فوج جیت بھی گئی تو کس سے جیتے گی؟ کیا اس فتح کا جشن ویسے ہی منایا جائے گا جیسے 65ءکی جیت پر منایا گیا تھا؟ فتح صرف وہاں موجود آخری فرد کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھی یہی حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔ ”انسانوں کی نہیں زمین کی ضرورت ہے“ وہاں ایسا ممکن ہوا نہ جہاں ایسا ہو سکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے جس خطے میں فوج کو بھیجا ہے۔ وہاں کے حالات سازگار نہ موسم‘ عوام خلاف ہو گئے تو گویا زمین آسمان بھی حامی نہ رہے۔ اور پھر سامنے کوئی دشمن بھی نہ ہو تو کیسی جنگ اور کیسی فتح کی تمنا۔ 15 اپریل 2012ءکو شدت پسندوں نے بنوں جیل توڑ کر 400 قیدی چھڑا لئے جن میں کچھ سزائے موت اور کچھ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ 93 میں سے 63 اہلکار اس دن غیر حاضر تھے۔ باقی تیس بھی شاید حملہ آوروں کی معاونت کرتے رہے ہوں۔ اِدھر قبائلی علاقوں میں ہماری فوج امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے اُدھر بلوچستان میں امریکہ پاکستان کے خلاف لڑ رہا ہے۔ بھارت اس کا معاون ہے۔ امریکی کانگریس میں بلوچستان کی آزادی کی بات ہو رہی ہے۔ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔ ہماری حکومت اس کو پسندیدہ ملک قرار دیتے ہوئے خسارے کی تجارت کئے جا رہی ہے۔ خدا جانے ان حکمرانوں کا آخر ایجنڈا کیا ہے؟ ضرورت تو پاکستان اور پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرداں دشمن سے نمٹنے کی ہے۔ جو باالکل واضح ہے۔ اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں نے پاک فوج کے ہاتھ میں بندوق تھما کر اسے جو سینہ دکھایا ہے وہ بھی پاکستانیوں کا ہے۔ قوم التجا کرتی ہے کہ فوج کو اس جنگ سے نکالا جائے جو غیروں کی خوشنودی کے لئے اپنوں کے ساتھ لڑ رہی ہے اور یہ غیر تو اب صریح دشمن بھی ثابت ہو چکے ہیں۔ قوم اور عوام کے خلاف جنگ جیتنا ممکن ہوتا تو کرزئی افغانستان میں 40 ممالک کی فوج اور جدید ترین اسلحہ کے ساتھ جیت چکا ہوتا۔
No comments:
Post a Comment