منگل ، 17 اپریل ، 2012
ووٹ کس کے لئے؟
فضل حسین اعوان ـ
جنوبی ایشیاءمیں بدامنی، پاکستان اور بھارت کی اکثریتی آبادی کا خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کا سبب ہندو بنیئے کی جارحانہ و توسیع پسندانہ پالیسیاں‘ پاکستان کو ہر صورت مشکلات سے دوچار رکھنے اور نقصان پہنچانے کی سازشیں ہیں۔ اِدھر قیام پاکستان کی منزل قریب آ رہی تھی اُدھر نوزائیدہ مملکت کو پریشان کیے رکھنے کی ناپاک منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔ کشمیر پر قبضہ مکار دشمن کی ایسی ہی منصوبہ بندیوںکا شاخسانہ ہے۔ وہ تو آس لگائے بیٹھے تھے کہ پاکستان اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد گو بہترین صلاحیتوں کی حامل قیادت کے فقدان کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ پاکستان کی ہر لیڈر شپ نے ہندو کے اکھنڈ بھارت کے خواب کو بھیانک تعبیر سے دو چار کیے رکھا۔ بھارتی قیادتیں آج بھی اکھنڈ بھارت کے پکھنڈ کے سحر سے باہر نہیں نکل سکیں۔
کتنا اچھا ہوتا کہ تقسیم کے بعد بھارت خوش دلی سے پاکستان کو تسلیم کرتا۔ دونوں ممالک اچھے ہمسایوں کی طرح رہتے۔ ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھتے بہترین تعلقات ہوتے، تجارت ہوتی اور خطے میں پاکستان بھارت ایک مضبوط معاشی طاقت ہوتے۔ دونوں ممالک ترقی کرتے اور عوام خوشحال ہوتے۔ اس طرف آنے کے بجائے بھارت نے پاکستان کی بربادی کی تدبیریں کرنا شروع کر دیں۔ کشمیر پر قبضہ کر لیا یہی دونوں ممالک کے درمیان بڑا تنازعہ ہے دیگر تنازعات اسی ایک ایشو کی پیداوار ہیں۔ پھر خطے میں اپنی چودھراہٹ اور پاکستان کو نیچا دکھانے کی خواہش میں بھارت نے اسلحہ کے انبار لگانا شروع کر دیئے۔ اس نے ایٹمی صلاحیت 1973ءمیں پوکھران میں دھماکہ کرکے حاصل کر لی تھی۔ اسلحہ سازی کی صنعت میں نمایاں ایسا کونسا ملک ہے جس سے بھارت اسلحہ نہیں خرید رہا۔ اسرائیل کے اسلحہ کا سب سے بڑا گاہک بھارت ہے امریکہ، روس، فرانس، ہالینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھارت روایتی اور ایٹمی اسلحہ خرید رہا ہے۔ پاکستان کو مجبوراً اپنے دفاع کیلئے اپنے گھوڑے تیار رکھنا پڑتے ہیں۔ خطے میں اسلحہ کی دوڑ بھارت نے شروع کی۔ اس کا دفاعی بجٹ پاکستان کے مجموعی بجٹ کے لگ بھگ ہے اگر اسلحہ پر صرف ہونی والی خطیر رقم دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کی تعلیم و صحت اور بہبود پر خرچ کریں تو کم از کم خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو بھی تمام تر انسانی سہولتیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ اس کے لئے بھارت کو اپنے جارحانہ، توسیع پسندانہ اور پاکستان کو مشکلات سے دوچار رکھنے کے عزائم سے باز رہنا ہو گا مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے جو سراسر منافقت ہے۔ ایک طرف ہماری شہ رگ پر دباﺅ میں اضافہ‘ پاکستان میں دہشت گردی‘ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی دوسری طرف دوستی کی باتیں۔ کیا بنیے کی بدنیتی کا کھلا ثبوت نہیں؟ آج ہمارے حکمران اور سوائے ایک محدود طبقے کے سارے سیاست دان بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کے حامی ہیں۔ موجودہ حکومت نے تو بھارت کو تجارت کے حوالے سے پسندیدہ ترین ملک قرار دیدیا ہے۔ اس کے ساتھ تجارت ہو رہی ہے وہ بھی خسارے کی۔ ایسے میں بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کیا دباﺅ باقی رہ جاتا ہے؟ کروڑوں پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ ملک کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں ہو جو پاکستان کو اقبال و قائد کا پاکستان بنا دےں۔ بدقسمتی سے جس دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ضرورت ہے اس کے آگے ہماری ہر قابل ذکر اور پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی جماعت بچھی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی ف، اور سونامی خان بھی بھارت کے ساتھ تجارت کے حامی ہیں۔ یہی اگلے الیکشن میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔ ان میں سے جو بھی اقتدار میں آئے مسئلہ کشمیر پر کسی پیشرفت کی توقع نہیں۔ گویا اس خطے پر بدامنی کے بادل چھائے رہیں گے اور دونوں طرف کے عوام کی زندگیوں میں کسی مثبت تبدیلی کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ لوگ سوچتے ہیں کہ آخر وہ ووٹ کس کو دیں جو بھارت کے پنجہ استبداد سے کشمیر اور کشمیریوں کو آزادی دلا دے؟ پاکستان میں دو ہی پارٹیاں ہیں جو مسئلہ کشمیر پر اصول پسندی پر کاربند ہیں۔ ایک فوج اور دوسری دفاع پاکستان کونسل۔ دونوں غیر سیاسی ہیں فوج بھارت کے ساتھ تجارت کی حامی ہے نہ دوستی اور نہ ہی بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی۔ گو حکمران تاثر دے رہے ہیں کہ فوج کے مشورے سے بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ فوج کی طرف سے ایسے اقدام کی کبھی حمایت سامنے نہیں آئی۔ وزیر اعظم گیلانی 8اپریل کو لاہور میں تھے انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں بھارت سے دوستانہ تعلقات چاہتی ہیں فوج کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم کے بیان سے حکومت اور فوج کی ترجیحات کا تعین ہو جاتا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کشمیر ایشو پر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے فوج کا موقف بھی یہی ہے لیکن دفاع پاکستان کونسل اس میں جماعت اسلامی کی موجودگی کے باوجود اور غیر سیاسی اتحاد ہے۔ کروڑوں پاکستانیوں کا ووٹ کشمیر پالیسی پر جرات مندانہ سوچ کی حامل جماعتوں کیلئے محفوظ ہے۔ اگر قابل ذکر سیاسی جماعتیں کشمیر پالیسی پر جرات سے کاربند نہیں رہتیں تو دفاع پاکستان کونسل صرف اس ایک ایشو کو لے کر آگے بڑھے۔ اس کے ساتھ سنی اتحاد کونسل اور ادھڑی ہوئی مجلس عمل کی کچھ جماعتیں بھی آ ملیں گی۔ پھر اگر عوام میں جڑیں رکھنے والی جماعتیں ان کے ساتھ مل جاتی ہیں تو عوام کو ان کے انتخاب میں آسانی رہے گی۔
No comments:
Post a Comment