About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, April 29, 2012

گیلانی صاحب! الوداع؟





گیلانی صاحب! الوداع؟
فضل حسین اعوان ـ 26 اپریل ، 2012

 این آر او کیس پر عملدرآمد کے حوالے سے وزیراعظم گیلانی توہین عدالت کی زد میں آئے۔ توہین عدالت سے بچ نکلنے کا عموماً غیر مشروط معافی ایک ہی طریقہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم خط نہ لکھنے کا عزم کئے ہوئے تھے اس لئے معافی کا آپشن ہی ختم ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ یہ تک کہتی رہی کہ صرف خط لکھ دیں کیس یہیں، اسی وقت، جہاں ہے وہیں ختم کر دیتے ہیں۔ جواب ناں میں تھا۔ وزیراعظم اپنی پارٹی کے چیئرمین سے وفاداری کا برملا اعلان کرتے ہیں۔ وفاداری اور چاکری کے صلے میں ہی پاکستان کے سب سے بڑے منصب تک رسائی ملی، اس لئے ریاست اور آئین سے وفاداری کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ استثنیٰ کی اپنی ہی تشریح تراشی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ فیصلہ شواہد اور ثبوتوں کی بنا پر کرتی ہے اس کا حکمرانوں کو بخوبی علم ہے۔ قوم پر اپنے حکمرانوں کا کردار بلکہ واضح ہو چکا ہے۔ فراڈ، کرپشن، جھوٹ، اقربا پروری، دوست نوازی اور ماروائے آئین و قانون اقدامات‘ کس دور کا طرہ امتیاز ہے؟ وزیراعظم نے دو روز قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”ملک میں غیر آئینی اقدام کی کسی میں جرات نہیں“ تقریب کے بعد اس بیان پر انہوں نے خود بھی قہقہہ لگایا ہو گا۔ 18ویں ترمیم کے تحت وزرا کی تعداد 49 ہو سکتی ہے جو اب 70 سے زائد ہو چکی ہے۔ رینٹل پاور منصوبے میں کرپشن پر سپریم کورٹ نے جن کو مجرم قرار دیا ان سے کچھ وزیر بنا دئیے گئے۔ اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل شکیل کو اس لئے عہدے سے الگ کر دیا گیا کہ وہ ڈرگ کوٹہ کیس کی تحقیقات کر رہے تھے جس میں وزیراعظم کے صاحبزادے کا نام آتا ہے۔ بریگیڈئر فہیم کو دھمکیاں دے رہے ہیں تم ادھار پر لئے گئے ہو اپنی اوقات میں رہو۔ اے این ایف نے مخصوص عرصہ کے دوران وزیراعظم ہاوس کے مہمان بننے والوں کی لسٹ مانگی تھی وزیراعظم صاحب اس پر سیخ پا ہیں اور لسٹیں فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ شاید یہ لسٹیں خالصتان تحریک کے لیڈروں کی لسٹوں سے بھی زیادہ اہم اور سیکرٹ ہیں، وہ تو راجیو کے حوالے کر دی گئی تھیں یہ مجرموں تک پہنچنے کے لئے اپنے ماتحت ادارے کے حوالے نہیں کی جا رہیں۔ موسیٰ گیلانی ہو سکتا ہے بے گناہ ہوں، انسداد منشیات کے وزیر، سیکرٹری اور وزیراعظم کے اقدامات‘ اعلانات اور بیانات نے انہیں مشکوک بنا دیا ہے۔ ڈرگ کوٹہ کسی پارٹی کو صرف 500 کلو دیا جا سکتا ہے 9 ہزار کلو کس نے دلا دیا اور پھر اس کا استعمال کہاں ہوا جبکہ فی گرام چٹکی بھر کی قیمت 12 سے 14 ہزار روپے ہے۔ ان سوالات کو حکمرانوں نے منکر نکیر کے سوالات سے بھی مشکل بنا دیا ہے۔ ان سوالوں کے جوابات تو دینا ہی ہوں گے، شاید سوال کرنے والوں کی مشکل آج سپریم کے فیصلے سے آسان ہو جائے۔ توہین عدالت کیس میں حکمرانوں کو اچھی طرح معلوم تھا فیصلہ کیا ہو سکتا ہے اسی لئے گیلانی صاحب نے ایسا وکیل کیا جو جج کرنے کی صلاحیت اور مدمقابل پارٹی سے ڈیل کا ”تجربہ“ رکھتا ہے۔ مختصراً ”تجربے“ کے حوالے سے واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ نواز شریف دور میں صدارت کے لئے جناب رفیق تارڑ کے کاغذات نامزدگی چیف الیکشن کمشنر مختار جونیجو نے 1997ءکو مسترد کر دئیے یہ کیس پی پی کے امیدوار آفتاب شعبان میرانی کے وکیل اعتزاز احسن نے لڑا۔ الیکشن کمشن کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل آئین کے آرٹیکل 42 اور شیڈول II کے تحت صرف الیکشن کمشن میں ہی ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اوکھے سوکھے ویلے میں جسٹس قیوم کام آتے رہے۔ نظرثانی کے لئے ن لیگ یہ کیس ملک قیوم کی عدالت میں لے گئی جہاں چودھری صاحب نے نرم دلائل دئیے جس پر تارڑ صاحب کے کاغذات بحال ہو گئے۔ بینظیر بھٹو معاملہ سپریم کورٹ لے جانا چاہتی تھیں کہ اعتزاز احسن نے کہا کہ رفیق تارڑ میرے عزیز ہیں اگر وہ صدر نہ بنے تو بھی ہمارے امیدوار آفتاب شعبان میرانی صدر نہیں بن سکتے۔ حلیم صدیقی یا ظفراللہ جمالی بن جائیں گے، بہتر ہے تارڑ صاحب ہی کو صدر بننے دیا جائے، جس پر محترمہ نے رضا مندی ظاہر کر دی (یہ مفہوم سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد کی ایک تحریر سے لیا گیا ہے)وزیراعظم کے وکیل کو جسٹس افتخار محمد چودھری کے بحالی کے دنوں میں ان کا ڈرائیور ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جسٹس افتخار کی عدالت میں کبھی پیش نہیں ہوں گے مگر اپنے عہد پر عمل نہ کر سکے البتہ جس اُمید کے ساتھ وہ ان کے روبرو پیش ہوئے اس میں مایوسی ہوئی۔ ماہرین کے مطابق ملزم کی صفائی میں ان کے پاس دلائل تو شروع سے نہیں تھے لہٰذا وہ جذبات اور ججوں پر الزام سے کام لینے لگے۔ وزیراعظم کے پاس اپنی صفائی میں سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ انہوں نے ججوں کو رہا کیا‘ بحال کیا اور ان کے باپ دادا بھی عوامی نمائندے تھے۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے فرمایا عدلیہ سے میری دوستی ہے مجھے کوئی خطرہ نہیں۔ دوسری طرف وہ وزیراعظم ہاوس اور جیل کے درمیان فاصلے بھی ناپتے سُنائی دیتے ہیں۔ جس کا انہیں کچھ تجربہ تو ہے ہی اب ریہرسل بھی کر رہے ہیں۔ وہ 30 مارچ کو چین گئے تو کسی عالیشان ہوٹل میں نہیں ٹھہرے۔ ان کا قیام صوبہ بنیان کے ساحل پر عام دو منزلہ مکان میں تھا۔ جیل میں مچھر چوہے ہوتے ہیں اس ساحلی علاقے میں زہریلے سانپ بکثرت پائے جاتے ہیں جن پر نظر رکھنے کے لئے تربیت یافتہ عملہ تعینات کیا گیا تھا۔ ہمارے وفد کو سانپوں سے بچانے کے لئے یا سانپوں کو وفد سے بچانے کے لئے؟ ویسے بھی ان کو جیل میں کچھ زیادہ پریشانی نہیں ہوگی، جیل حکام نے وہ کمرہ پھر سے رنگ و روغن کر کے تیار کر دیاہے جس میں انہوں نے مشرف آمریت میں چند سال گزارے تھے جس میں اے سی اور بیڈ کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جیل حکام کو اس وقت کے جیلر طارق پرویز کا انجام بھی یاد ہے جس نے گیلانی صاحب سے درجن بھر موبائل برآمد کئے جس پر جیل میں ہوتے ہوئے بھی طارق پرویز کا شاید بہاولپور تبادلہ کرا دیا تھا اور وزیراعظم بنے تو او ایس ڈی بنا دیا۔ ضروری نہیں کہ وزیراعظم صاحب سزا ہونے کی صورت میں جیل جائیں، مونس الٰہی نے گرفتاری دی تو ریسٹ ہاوس میں رہے۔ حضرت مولانا حامد سعید کاظمی کہاں ہیں؟ کس جیل میں ہیں؟ گیلانی صاحب کو سزا کی صورت میں ہو سکتا ہے وزیراعظم ہاوس کو ہی سب جیل قرار دے دیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا تھا مجھے سزا ہوئی تو وزیراعظم تو کیا میں تو رکن قومی اسمبلی بھی نہیں رہوں گا۔ ان کے وکیل کہتے ہیں سزا کی صورت میں بھی گیلانی صاحب وزیراعظم رہیں گے۔ شاید اب وہ اپنے وکیل کا مشورہ پسند فرمائیں گے ویسے بھی عدلیہ کے باقی فیصلوں پر کونسا عمل ہوا ہے کہ اس فیصلے پر بھی حکومت عمل کرنے پر مجبور ہو جائے۔ باالفرض یوسف رضا گیلانی کو سزا ہو جاتی ہے تو بھی ملک میں کوئی انقلابی تبدیلی کیا معمولی تبدیلی آنے کی بھی توقع نہیں ہے۔ البتہ حکمرانوں نے کرپشن، لاقانونیت، بزدلانہ خارجہ پالیسی، اقربا پروری، لوٹ مار سے ملک کو جس نہج پر پہنچا دیا اور قوم کو بے بس و لاچار کر دیا اس سے اب انقلاب کے تمام لوازمات اور جواز پیدا ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف نے آج پھر خونیں انقلاب کی بات کی ہے۔ عوام بھی برملا خونیں انقلاب کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں جس میں ہزاروں گردنیں کٹ سکتی ہیں۔ اگر خون بہا تو پھر میرے اور تیرے خون کا سوال بے معنی ہو جائے گا.... قوم ملک کو بحرانوں کی دلدل میں دھکیلنے والا تو یقیناً ایک بھی نہیں بچے گا۔ خونیں انقلاب کی رسی کا ایک سِرا بدستور ان کے ہاتھ میں ہے اپنی اصلاح کر لیں تو اب بھی امکانی خونیں انقلاب کے امکان کو روکا جا سکتا ہے۔


No comments:

Post a Comment