فضل حسین اعوان ـ 17 مارچ ، 2012
17-3- 2012
مہران گیٹ.... فوج.... اور سازشیں
فضل حسین اعوان ـ 17 مارچ ، 2012
قسط نمبر 1
مغرب اپنے مقاصد کے حصول اور تکمیل کیلئے صدیوں تک بھی پلاننگ اور انتظار کرتا ہے۔ عثمانیہ سلطنت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ ہیمفرے نے شروع کیا جسے لارنس آف عریبیہ نے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے عثمانیہ سلطنت توڑ کے مسلمانوں کے دل بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ۔ ان سازشوں کا سلسلہ سوا دو سو سال پر محیط ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز ہوا تو اس کے ساتھ ہی اس کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ انہوں نے ببانگ دہل کہا تھا ”گھاس کھا لیں گے ایٹم بم ضرور بنائیں گے“ ہمارے سیاستدانوں کا ایک ہی قابل فخر کارنامہ ہے کہ میاں نواز شریف کے 28 مئی 1998ءکو کیے جانے والے دھماکوں تک ہر بااختیار حکمران نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی دباﺅ قبول نہ کیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی آسانی سے تکمیل اس لئے بھی ہو گئی کہ امریکہ کو روس کے خلاف افغان جنگ میں پاکستان کے تعاون کی اشد ضرورت تھی اس لئے امریکہ نے پاکستان کی نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششوں سے صرفِ نظر کیا۔ روس ٹوٹا تو ایک بار پھر امریکہ کیلئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام ناقابل برداشت ہو گیا۔ اس کو رول بیک کرانے کیلئے امریکہ نے یہاں پاکستان پر کھلے بندوں دباﺅ ڈالا وہیں حکمرانوں کو اپنی راہ پر لانے کی کوششیں کیں تو کئی بِک بھی گئے۔ ایٹمی پروگرام فوج کی نگرانی میں شروع ہوا ، پایہ تکمیل تک پہنچا اور فوج ہی اس کی محافظ ہے۔ پاکستان میں اگر آئیڈیل جمہوریت ہوتی یا رہی ہوتی تو یقینا ایٹمی پروگرام کے حوالے سے حتمی فیصلے بھی سیاسی حکومتیں کرتیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے بدخواہوں کی طرح ایٹمی پروگرام کو پاکستان کے بعض حکمرانوں سے بھی خطرہ رہا ہے۔ کوئی خود کو کتنا بڑا ہی تیس مار خان اور طورم خان کیوںنہ سمجھے۔ سیاسی حکمرانوں کی ایٹمی پروگرام تک کبھی رسائی نہیں رہی۔ سوائے شوکت عزیز کے ۔ جن کو ایٹمی تنصیبات کا دورہ کرا دیا گیا۔ گو شوکت عزیز با اختیار وزیر اعظم نہیں تھے لیکن ان کی ڈوریاں یہاں سے ہلتی تھیں اس حوالے سے ان کا دورہ خطرناک تھا۔ مشرف سے سوال کرنے والے ان سے اس حوالے سے بھی سوال ضرور کریں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی چونکہ محافظ پاک فوج ہے ، مضبوط فوج کی موجودگی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک رسائی اور اسے نقصان پہنچانا ممکن نہیں۔ جو قوتیں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو نقصان پہنچانا اور اس کو اپنے زیر کنٹرول لانا چاہتی ہیں وہ مضبوط فوج کو اپنے نا پاک منصوبوں کے راستے میں سنگ گراں سمجھتی ہیں۔ پاکستان کو ایٹم بم سے محروم یا اس کی صلاحیت کو محدود کرنے کیلئے فوج کو کمزور کرنا اس کی پہلی اور آخری ترجیح ہے۔ اسی لئے سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں۔ سیاستدانوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے پاکستانی میڈیا پر 670ملین ڈالر انویسٹ کئے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز دیکھنے اور اخبار و جرائد میں آرٹیکلز پڑھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس سرمایہ کاری سے کون کون مستفید ہوا ہو گا۔
کرنل قذافی کو بھی ایٹم بم بنانے کا شوق چرایا تھا اس نے ابتدا بھی کر دی۔ امریکہ کا دباﺅ پڑا اور بڑھا تو ایٹم بم کی تیاری کیلئے اکٹھا کیا گیا مواد اور آلات امریکہ بھجوا دیئے۔ امریکہ ایسی ہی توقعات عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان سے بھی رکھتا ہے۔ کرنل قذافی جیسے پاکستان میں بھی بااختیار حکمران ہوتے تو شاید امریکی خواہش بر آتی۔ یہ معاملہ چونکہ فوج کے ہاتھ میں ہے اس لئے یہ پروگرام محدود ہو سکا اورنہ رول بیک۔ فوج کو کمزور کرنے کیلئے اسی لئے سازشیں ہو رہی ہیں۔ مغرب تو اپنی سازشوں کی تکمیل کیلئے صدیوں کا انتظار بھی کر لیتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو شروع ہوئے تو ابھی چالیس سال، ایٹم بم کو بنے 30 اور باقاعدہ اعلان شدہ ایٹمی قوت بنے 14 سال ہوئے ہیں۔
آج مہران گیٹ کا پھر شہرہ ہے ا سکی بھنک 20سال قبل پڑی۔ 22سال قبل 1990ءمیں بینظیر بھٹو کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے یونس حبیب سے کروڑوں روپے حاصل کرکے سیاستدانوں میں تقسیم کئے گئے۔ مقصد محترمہ کے خلاف آئی جے آئی کے نام سے سیاسی اتحاد تشکیل دینا تھا۔ اس اتحاد کو تشکیل دینے والوں کے پیش نظر بھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام تھا جو اپنی دانست میں اسے خطرات میں سمجھتے تھے۔ میں ان کروڑوں پاکستانیوں میں سے ہوں جن کا روئے زمین پر ایک ہی ٹھکانہ پاکستان ہے جو اس کی حفاظت کے لئے جان کی بازی تک بھی لگانے کی پروا نہیں کرتے وہ شخصیات ہوں یا ادارے، وہ ہمارے لئے باعث صد احترام ہیں . جو اس معاملے میں دوسرے کنارے پر ہیں ان سے اوّل تو قدرت کاملہ انتقام لے لیتی ہے اگر بچ نکلتے ہیں تو قوم کو ان کے بارے میں معلوم ضرور ہونا چاہیے۔
1990ءمیں بااختیار لوگوں کی طرف سے سیاستدانوں میں کروڑوں روپے تقسیم کرنے کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اگر سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سوچا جائے تو غلام اسحق خان ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ He was the right man at right place انہوں نے ایک بار محترمہ کی حکومت توڑی دوسری بار نواز شریف کی۔ بالآخر ان کو خود بھی نواز شریف کے ساتھ گھر جانا پڑا اس لئے دونوں پارٹیوں کے لئے راندہ درگاہ ٹھہرے۔ جنرل اسلم بیگ یقینا اقتدار کے لالچ سے مبرا تھے اور ان کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ محترمہ کو اقتدار دلانے میں جنرل اسلم بیگ پیش پیش تھے۔ اسحاق خان کو صدر برقرار رکھنے کی پیپلز پارٹی نے حمایت کی تھی پھر محض ڈیڑھ دو سال بعد ہی صدر اور آرمی چیف ان سے بدظن کیوں ہو گئے کہ ان کی حکومت توڑ دی اور ان کے دوبارہ اقتدار میں واپسی ناممکن بنانے کیلئے آئی جے آئی کی تشکیل پر کروڑوں روپے بھی لگا دیئے؟ ۔ آگے چلنے سے قبل ماہرین کی یہ رائے ذہن میں رہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو جس عمر میں اقتدار ملا اس وقت ان کی سیاسی بصیرت اور بصارت کا خانہ تقریباً خالی تھا۔ البتہ پچاس کی عمر کے بعد دونوں پختہ کار سیاست دان بن گئے۔
محترمہ اقتدار میں آئیں تو سیاسی ناتجربہ کاری کے باعث معاملات پارٹی قائدین کی مشاورت سے چلاتی تھیں انہوں نے کچھ انکلوں سے اقتدار سے قبل اور کچھ سے اقتدار کے دوران جان چھڑا لی تھی۔ یہ تو عمومی رائے ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تشکیل میں امریکہ کا کردار اہم ہوتا ہے ۔ شاید ہٹانے میں اتنا زیادہ نہیں۔ محترمہ کے پہلے دور میں بھی کرپشن کہانیاں عام تھیں۔ آصف علی زرداری کو 10پرسنٹ کہا جاتا تھا۔ لندن سے پاکستان میں ہسپتال کی تعمیر کا اشتیاق لے کر آنے والے بخاری بزنس مین سے ساڑھے تین کروڑ روپے وصول کرنے کیلئے ان کی ٹانگ سے بم باندھنے کی داستان بھی عام ہوئی۔ کراچی میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا حکم دیا تو آرمی چیف جنرل بیگ نے کہا کہ فوجی آپریشن اندرون سندھ ڈاکوﺅں اور رسہ گیروں کے خلاف بھی کیا جائے گا جس سے محترمہ نے انکار کر دیا تھا۔ الذوالفقار کی کارروائیاں بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیںیہ معاملات ایسے نہیں ہیں جن کو جواز بنا کر جمہوریت کو تلپٹ کر دیا جائے۔ .... تاہم....
No comments:
Post a Comment