جمعرات ، 15 مارچ ، 2012
جرمِ ضعیفی
فضل حسین اعوان
کوئٹہ کے ایمل کانسی نے 25جنوری 1993کو ورجینیا میں سی آئی اے کے اہل کاروں پر اے کے 47 سے فائرنگ کی جس میں 68سالہ لانسنگ ایچ بینٹ اور 28سالہ فرینک ڈارلنگ موقع پر دم توڑ گئے جب کہ ان کے تین ساتھی زخمی ہوئے۔ کانسی کے بقول اس کے اس انتہائی اقدام کا باعث مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی تھی خصوصی طور پر امریکہ کی حمایت سے اسرائیل کے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر۔ جعلی پاسپورٹ پر امریکہ پہنچنے والا ایمل کانسی وہاں ڈرائیوری کرتا تھا۔ قتل کی واردات کے بعد پاکستان چلا آیا۔ اسے ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے رات کے اندھیرے میں ایف بی آئی نے پاکستانی ایجنسیوں کے تعاون سے اٹھایا اور دو دن بعد 17جون 1997ءکو سی 141 کارگو طیارے میں بٹھا کر امریکہ پہنچا دیا گیا۔ کانسی کی حوالگی کے دنوں میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے آراستہ وزیر اعظم اور فاروق لغاری 58 ٹو بی کے اختیارات سے پیراستہ صدر تھے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کانسی کی گرفتاری کس کی ایما پر ہوئی۔ امریکہ میں اس کا ٹرائل ورجینیا کی عدالت نے کیا جس نے سزائے موت کے ساتھ ساتھ اسے قید اور 6 لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا بھی سنائی۔ سزائے موت پر 14 نومبر 2002ءکو عمل کرکے امریکہ نے نعش پاکستان پہنچا دی۔
کانسی نے جرم کا ارتکاب امریکہ میں کیا تھا اگر اس کا ٹرائل پاکستان میں ہوتا امریکی مدعیان کیس کی پیروی کرتے تو پاکستانی عدالتیں بھی اسے وہی سزا دیتیں جو امریکی جیوری نے دی۔ ایمل کانسی امریکیوں کا قاتل تھا اس لئے امریکہ اسے پاکستان سے لے گیا۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت نے اپنے شہری کی اس کو زہر کے ٹیکے کے ساتھ موت سے ہمکنار ہونے تک خبر نہ لی۔ اس کے بعد گزشتہ سال ایسا ہی واقعہ ریمنڈس ڈیوس کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا جس نے دو پاکستانیوں کو قتل کیا۔ وہ پاکستان سے فرار نہیں ہوا تاہم امریکہ حکومت پاکستان پر دباﺅ ڈال کر اس وعدے کے ساتھ کہ اس کے خلاف دو پاکستانیوں کے قتل کا مقدمہ امریکہ میں چلے گا، اسے رہا کرا کے لے گیا اب وہ وہاں آزاد ہے۔عالمی سطح پر انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ نے ایک طرح کے معاملے میں دہرے معیار کا رویہ کیوں اپنایا؟ اب اس کا مزید خوفناک رویہ سامنے آیا ہے۔
10مارچ کو قندھار کے سخت پہرے میں گھرے ہوئے فوجی اڈے سے ایک امریکی فوجی رات کے پچھلے پہر باہر نکلا۔ دو نواحی دیہات الخوئی اور نجیبان میں دو گھروں میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کرکے 9خواتین اور 3بچوں سمیت 16 انسانوں کو قتل کیا اور متعدد کی لاشوں کو آگ لگا دی۔ یہ سفاکیت کی انتہا ہے۔ امریکہ نے اس پر افسوس ضرور کیا ساتھ اسے ذہنی خلفشار کا شکار بھی قرار دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیا ذہنی معذور لڑ رہے ہیں؟ یقینا اس اقدام کی منظوری اوباما نے دی نہ پینٹا گون نے، لیکن کوئی بھی فوجی دو اڑھائی بجے اپنی مرضی سے فوجی اڈے سے نہیں نکل سکتا۔ اس ذہنی معذور کو اپنے جیسے ذہنی معذور ساتھیوں کا تعاون ضرور حاصل ہو گا۔ ابھی تک بگرام جیل میں امریکی فوجیوں کی طرف سے قرآن کریم کی بے حرمتی پر افغان مشتعل ہیں۔ 16 بے گناہ افراد کی ہلاکت جلتی پر تیل کا کام کرے گی۔ افغانوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ انتقام میں ہر امریکی فوجی کا سر قلم کر دیں گے۔ بکھرے ہوئے افغانیوں کو مذکورہ دو واقعات نے متحد کر دیا ہے جس کا نتیجہ جلد سامنے آ جائے گا۔ اوپر سے پاکستان کی طرف سے نیٹو رسد کی بحالی کا بھی ہنوز کوئی امکان نہیں۔
افغان پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ 16 افراد کے قاتل پر مقدمہ افغانستان میں چلایا جائے۔ پینٹاگون نے افغانوں کی نمائندہ پارلیمنٹ کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کیس دو اور دو چار کی طرح واضح ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں قتل کی مختلف سزائیں ہیں۔ کہیں سزائے موت کہیں عمر قید اگر کیس فوجی عدالت میں چلا تو فوجی عدالت شاید اسے ذہنی خلفشار کا نتیجہ قرار دے کر ا سکے علاج کی سفارش کر دے۔
عراق افغانستان اور پاکستان میں امریکہ جو کچھ کر رہا ہے۔ لیبیا میں جو کچھ کر چکا، شام میں جو کچھ کرنے والا ہے اسے پوری مسلم امہ کی بے بسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس مصرعے کے مصدق تصویر سامنے آتی ہے۔
ع ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دنیا عمومی طور پر مسلم اور نان مسلم دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ نان مسلم امت مسلمہ کے خلاف متحد ہیں۔ ہنود، یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ بالکل واضح ہے۔ کمیونزم اور سوشلزم کے دعویدار بھی اس گٹھ جوڑ کے نشانے پر ہیں۔ ہنود، یہود اور نصاریٰ کی اجارہ داری کا خاتمہ صرف مسلمہ امہ کے اپنے اتحاد اور چین و روس کو ساتھ ملانے سے ہی ممکن ہے۔ چین نے عالمی تھانیداری کی کبھی منصوبہ بندی کی نہ وہ کسی کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے۔ البتہ روس کو اپنے دماغ سے ایک بار پھر پہلے کی طرح سپر پاور بننے کا خنانس نکالنا ہو گا۔ اگر مسلم سوشلسٹ اور کمیونسٹ ممالک نے ہنود و یہود، نصاریٰ کے عالمی اتحاد کے سامنے بند باندھنے کی کوشش نہ کی تو یہ تثلیث ان کی خود مختاری کو بھی تا راج کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔
No comments:
Post a Comment