About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, March 11, 2012

ضمیرکی موت

اتوار ، 11 مارچ ، 2012

ضمیرکی موت
فضل حسین اعوان ـ 17 گھنٹے 23 منٹ پہلے شائع کی گئی
مہران بنک سکینڈل ایک ارب اڑتالیس کروڑ روپے کی گیم ہے ان میں سے مبینہ طور پر بتیس کروڑ روپے سیاستدانوں مخصوص صحافیوں اور تقسیم کرنے والوں کے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کئے گئے۔ تقسیم کاروں میں مرکزی کردار آئی ایس آئی کا بتایا جاتا ہے۔ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی تھے۔ ان کے پیٹ میں دیانت داری کا مروڑ اس وقت اٹھا جب ان کی تقسیم شدہ رقوم اپنا رنگ دکھا چکی تھیں۔ یونس حبیب سے حاصل کی گئی رقم آئی جے آئی کی تشکیل کیلئے استعمال ہوئی جس کا مقصد بے نظیر بھٹو کی دوبارہ اقتدار میں آمد کے رستے روکنا تھا۔ 1993ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو اسد درانی نے پیسے لینے والے سیاستدانوں اور صحافیوں کی فہرست ان کے حوالے کر دی جس پر درانی کو جرمنی کی سفارت سے نواز دیا گیا۔
کسی بھی ادارے یا کمپنی کی کامیابی کا انحصار اس کی انتظامیہ کے ایک دوسرے کے اوپر اعتماد پر بھی ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات صیغہ راز کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ان کو امانت کا نام دینا زیادہ بہتر ہے۔ مشاہدے میں یہ معاملات آتے رہتے ہیں کہ سرکاری اداروں سے ریٹائر ہونے والے بعض اعلیٰ عہدیدار ایسے راز بھی افشا کر دیتے ہیں جو آئینی و قانونی طور پر ان کی قبریں ان کے ساتھ ہی دفن ہو جانے چاہئیں۔ سیاست میں بھی یہ چلن عام ہو چکا ہے کہ پارٹی بدلنے کے ساتھ ہی ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھولنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ بلاشبہ بدترین غیر اخلاقی حرکت ہے۔ اس پر اگر کسی طرف سے واہ واہ کی جاتی ہے تو ملامت کرنے والوں کی کمی بھی نہیں ہوتی۔ پرائیویٹ بڑے اور چھوٹے اداروں سے بھی مالکان کے اعتماد کے لوگ ادارہ بدلنے کے بعد اعتماد کرنے والوں کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہوئے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ ہم اسے بھی بے اصولی اور بددیانتی کہیں گے۔تاہم پرویز حمید صاحب کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اصلی النسل نہیں ہو سکتے۔ 
جنرل درانی نے عدالت کے روبرو گزشتہ روز کہا کہ انہوں نے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے احکامات پر ذاتی حیثیت میں رقوم تقسیم کیں۔ آئی ایس آئی بطور ادارہ شامل نہیں تھی۔جنرل اسد درانی نے پی ایم اے میں قوم سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا۔ کیا وہ آرمی چیف کا غیر قانونی حکم ماننے کے پابند تھے؟ وہ جرنیل بن گئے تھے۔ فیلڈ مارشل تو بن نہیں سکتے تھے استعفیٰ دے کر گھر چلے آتے۔ راولپنڈی سے میجر ریٹائرڈ نذیر احمد فاروق کا فون آیا وہ کہتے ہیں میجر حمید اصغر قتل ہو گئے۔ ان کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا۔ ان پر دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ قتل کو حادثاتی موت قرار دے دیں۔ ضمیر دباﺅ کے راستے میں سنگ گراں بن گیا جو حقیقت تھی وہی لکھا۔ اس کی پاداش میں ترقی روک دی گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی کو ری جائن کیا تو تقرری د ھمیال کیمپ ہوئی۔ کمانڈنٹ قاسم بیس سے ملحقہ دو سو کنال اراضی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے یہ یہاں بھی سدِ راہ بن گئے۔ اس پر ان کو دو سال قبل ریٹائر کر دیا گیا۔ وہ جنرل درانی سے ایسے ہی کردار کی توقع کرتے تھے.... جنرل درانی اگر رقوم کی تقسیم کو جائز سمجھتے ہیں تو پھر ریٹائرمنٹ کے بعد جو راز ان کے ساتھ ہی دفن ہو جانا چاہیے تھا وہ چند سال بھی ہضم نہ کر پائے۔ بادی النظر میں انہوں نے دو مرتبہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کی، رقوم تقسیم کرنے میں ملوث ہوئے اور پھر اس راز کو افشا کرکے، ایسے ”باضمیر“ شخص کی گواہی کی کیا ساکھ رہ جاتی ہے۔ یہی کلیہ یونس حبیب کے اوپر بھی لاگو ہوتا ہے انہوں نے اب تک خاموشی کیوں اختیار کئے رکھی؟۔ سچ کہا کسی نے جب انسان کے ضمیر کی موت ہو جائے تو وہ زندگی کے جس مرحلے پر بھی ہو خواہ موت کی دہلیز پر ہی کیوں نہ ہو۔ اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی۔ اخلاقیات کی، اصولوں کی، نہ حلف کی پاسداری کی۔
درانی اور یونس حبیب کے سوا مہران بنک سکینڈل کا ہر مبینہ کردار خود کو اس معاملے سے بری الذمہ قرار دیتا ہے جو ذمے داری قبول کر رہے ہیں ان کی تو خبر لے لینی چاہیے۔ 1991-92ءمیں نواز شریف دور میں قومی اسمبلی میں آئی ایس آئی کی طرف سے رقوم کی تقسیم کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ برنجو کا نام آنے پر میر حامل بزنجو نے اپنی نشست سے کھڑے ہو کر سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بزنجو کوئی نام نہیں۔ یہ قبیلہ ہے جس بزنجو نے پیسے لئے اس کا نام بتائیں۔ میں نے کوئی رقوم وصول نہیں کی۔ اس پر چار پانچ ایم این ایز نے ان سے کہا لعنت بھیجیں اس معاملے پر، دفع کریں، چھوڑیں ان چکروں کو.... آج بڑے بڑے سیاستدانوں کے رقوم کی وصولی کے حوالے سے نام سامنے آ رہے ہیں جن میں سے ہر کسی نے تردید کی ہے۔ دیکھیں کہیں تقسیم کاروں نے کروڑوں روپے بڑے سیاستدانوں اور نامی‘ گرامی صحافیوں کے ناموں سے ملتے جلتے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم تو نہیں کر دیئے۔


No comments:

Post a Comment