About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, March 2, 2012

تھپڑکے بدلے

جمعۃالمبارک ، 02 مارچ ، 2012

تھپڑکے بدلے....!
فضل حسین اعوان ـ 16 گھنٹے 59 منٹ پہلے شائع کی گئی
ایران کے شہر قم کی سیاحت کرنیوالے بتاتے ہیں کہ ایک سڑک کے کنارے بلند و بالا عمارتوں کے درمیان ایک عمارت کھنڈرات کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔ جیسے زلزلے میں بکھر گئی یا بم سے اڑا دی گئی ہے۔ دیکھنے والے کو اسکی حقیقت جاننے کا تجسس ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انقلاب کے بعد یہ عمارت مدرسے یا سکول کیلئے تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس میں کلاسیں شروع ہوئیں۔ چند ماہ بعد عمارت میں دراڑیں پڑ گئیں تو پرنسپل نے حکام کو آگاہ کردیا۔ اطلاع امام خمینی تک پہنچی تو وہ خود چلے آئے۔ تعمیر کے دوران نگران انجینئر کو طلب کیا گیا۔ اس سے دراڑوں کی وجہ پوچھی تو اس نے ناقص میٹریل کی نشاندہی کرتے ہوئے ٹھیکیدار کی طرف انگلی اٹھا دی.... ”ٹھیکیدار کو غیرمعیاری میٹریل کے استعمال سے روکنا کس کی ذمہ داری تھی؟“.... اس سوال پر انجینئر نے سر جھکالیا۔ پوچھا گیا کہ ”عمارت کتنے سال نکال سکتی ہے؟“.... جواب تھا ”چار پانچ سال اس کو کچھ نہیں ہوگا“.... ”اسکا مطلب کہ اس عرصہ کے بعد عمارت 1500 بچوں پر گرے گی! ہمیں اس عمارت کی ضرورت نہ اسے تعمیر کرانے والوں کی“ اسکے ساتھ ہی انجینئر کو عمارت کے وسط میں کھڑا کرکے اوپر بم پھنکوا دیا گیا۔ تحقیق، تفتیش، کیس کی سماعت، فیصلہ سنانے اور اس پر عملدرآمد میں محض تین گھنٹے لگے۔ ملبہ اور لاش عبرت کیلئے آج بھی پہلے دن کی طرح موجود ہے۔آج ہمارے دو ہی مسائل ہیں، کرپشن اور لاقانونیت.... تمام بحران، آلام اور مصائب، کرپشن اور لاقانونیت نے ہی پیدا کئے ہیں۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی کے دور میں مغرب اور یورپ جیسی خرافات اور خرابات موجود تھیں۔ ایک مردِ درویش کی کاوش سے ایرانی معاشرہ مغرب کی اخلاق باختہ چکاچوند سے نکل کر دین کی پاکیزہ روشنی سے منور ہوگیا۔ افغان اسلحہ کو اپنا زیور اور افیون و پوست کی کاشت کو روٹی روزی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ملا عمر نے دونوں کے خاتمے کا اعلان کیا تو افغانوں نے برضا و رغبت اس پر عمل کیا۔ افغانستان میں طالبان دور کے شروع میں صرف ایک ہی قتل ہوا۔ خون کے بدلے خون کے فیصلے پر عمل ہوا۔ قاتل کی لاش چوک میں کئی روز تک دیدہ ¿ عبرت بنی رہی۔ کابل کا نظم و نسق چلانے کیلئے چند ایک پولیس والے تھے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ اغوا برائے تاوان کی لعنت ختم کرنے کیلئے آخری دم تک لڑونگا۔ ڈاکوﺅں کو نکیل نہ ڈال سکا تو مجھے خادمِ پنجاب کہلانے کا حق نہیں.... اغوا، ڈکیتی، چوری، رہزنی اور قتل و غارت گری کی وارداتوں سے کوئی صوبہ محفوظ نہیں۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صوبائی حکومتیں ایسی گھناﺅنی وارداتوں پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ اصل میں قانون کی عملداری نہ ہونے کے باعث لاقانونیت اپنے بچے جنے جا رہی ہے۔ اغوا تاوان کیلئے ہو یا اور مقاصد کیلئے، مغوی کے لوٹنے تک اہل خانہ اذیت کی پل صراط پر ہوتے ہیں۔ اس سے بھی بڑا ظلم جسے انسانیت کے ساتھ جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ تیزاب پھینک کر چہرہ بگاڑ دینا ہے، تیزاب پھینکنے سے ایک حد سے زیادہ جسم جل جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔ جو بچ جاتے ہیں ان کو ہر لمحہ مرنا پڑتا ہے۔ گویا موت سے بھی بڑی اذیت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس جرم کی سزا کتنی ہے، شاید سات سال قید! اس جرم پر یہ بھی نہیں ہونی چاہئے۔
ٹنڈو محمد خان میں 25 فروری کو وحیدہ شاہ کے خاتون اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر اور مخالف امیدوار کی خاتون ایجنٹ کو تھپڑ مارنے کے واقعہ کا سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے۔ سپریم کورٹ میں ہی وحیدہ شاہ کو تاحیات نااہل قرار دینے کی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ وحیدہ شاہ کا نتیجہ الیکشن کمیشن نے روک رکھا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر حامد علی مرزا صاحب رونا رو رہے ہیں کہ ان سے مشورہ کیوں نہیں کیا گیا؟ جاگیردار کی حویلی جل رہی تھی تو منشی سے اسکی آہ و بکا کا سبب پوچھا، اس نے جواب دیا میری ڈائری بھی جل گئی جس میں 500 کا نوٹ تھا۔ وحیدہ شاہ عوامی ووٹوں سے منتخب کی گئی رکن ہے۔ اس پر تاحیات پابندی کا کوئی جواز نہیں، یہ انکو منتخب کرنیوالوں کی توہین ہے البتہ ایسا وقوعہ دوبارہ نہ ہو، اسکا سدباب ہونا چاہئے.... کیسے؟ یہ ہم پر 1400 سال قبل واضح کردیا گیا تھا۔ خون کا بدلہ خون، ہاتھ کے بدلے ہاتھ، کان کے بدلے کان، آنکھ کے بدلے آنکھ۔ 1400 سال قبل دیا گیا ضابطہ حیات اب بھی پہلے روز کی طرح قابل عمل ہے۔ تیزاب کے بدلے تیزاب (جس کے جسم پر جتنا تیزاب پھینکا گیا، اسی طریقے سے مجرم پر بھی ڈال دیا جائے) گریبان چاک کرنے کے بدلے میں گریبان چاک، خون کے بدلے خون، ڈاکوﺅں، چوروں، رہزنوں کے ہاتھ قلم۔ تھپڑ کے بدلے، اسی مقام پر میڈیا کے سامنے تھپڑ.... ذرا یہ کرکے دیکھ لیجئے ملک میں کیسے کرپشن اور لاقانونیت کا خاتمہ ہوتا ہے۔
....٭....٭....



No comments:

Post a Comment