منگل ، 06 مارچ ، 2012
گنجائش!
فضل حسین اعوان ـ 15 گھنٹے 26 منٹ پہلے شائع کی گئی
سینٹ الیکشن میں متوقع کامیابی پر وزیراعظم گیلانی کا غیرمتوقع ردعمل ماورائے دانش ہونے کے ساتھ ساتھ پنجابی فلموں کی بے مقصد بڑھکوں جیسا تھا۔ اس سے وہ بہت کچھ بھی نظروں کے سامنے گھوم گیا جو ماضی کے خود کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے حکمران کہتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی لاش سے گزر کر ضیاءالحق حکومت میں آئے اور بھٹو کی قبر پر ہی ضیاءحکومت کا محل تعمیر ہوا جس کی ایک اینٹ محترم یوسف رضا گیلانی بھی تھے۔ بھٹو صاحب نے ٹی وی پر اپنی تقریر کے دوران اپنی کرسی کی مضبوطی کا دعویٰ کیا تھا۔ ضیاءالحق آئین کو کاغذ کا پرزہ سمجھتے اور اپنی اتھارٹی کے دعویدارتھا۔ نواز شریف برملا بھاری مینڈیٹ کو اپنے اقتدار کا استحکام قرار دیتے تھے۔ مشرف کا قول ”ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں“۔ آج کے بچے بچے کو یاد ہے۔ مذکورین جس انجام دے دوچار ہوئے وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کورٹ اور زرداری کے درمیان معلق وزیراعظم گیلانی کی کیفیت Between fire and big wall کی سی ہے۔ وہ آگ میں کود سکتے ہیں‘ نہ دیوار کو پھاڑ یا پھلانگ سکتے ہیں۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ وزارت عظمیٰ ان کے لئے تنی ہوئی رسی بن چکی ہے۔ عدلیہ کی ہلکی سی جنبش ان کو سیاست کی تاریک اور عمیق گہرائیوں کا مکین بنا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی یوسف رضا گیلانی کا نام نہیں‘ یہ پہلے بھٹو خاندان کی ملکیت تھی‘ اب زرداری خاندان کو وراثت میں مل گئی۔ لیکن بھٹو کے لاحقہ کیساتھ! 2008ءکے انتخابات کے بعد زرداری صاحب کو ڈیڑھ سو پارٹی ایم این ایز میں سے ایک کو وزیراعظم بنانا مقصود تھا۔ سو قرعہ ملتان کے مخدوم کے نام پر نکلا۔ خود اس لئے نہیں بن سکتے تھے کہ انکی اہلیہ محترمہ نے شوہر نامدار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ شاید وجہ ان کا نان گریجوایٹ ہونا تھا۔ عبدالحمید ڈوگر نے گریجوایٹ کی شرط ختم کرکے زرداری صاحب کیلئے اس عہدے کا دروا کردیا جس کا کوئی بھی ایم این اے اور سینیٹر خواب ہی دیکھ سکتا ہے لیکن وہ باہر نہیں نکل سکتے اور وزیراعظم کو باہر نکلنا پڑتا ہے۔ اس لئے ایوان صدارت کو ہی ترجیح دی جہاں وہ ازخود نظر بند ہیں۔ آصف زرداری پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ 18ویں ترمیم نے وزیراعظم سمیت ہر پارٹی ممبر بشمول سینیٹرز اور ایم این ایز کا سیاسی مستقبل پارٹی سربراہ کی مٹھی میں بند کر دیا۔ پارٹی کارکن کی حیثیت سے گیلانی صاحب کو سینٹ الیکشن جیتنے پر جشن منانے کا حق حاصل ہے لیکن وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ یقیناً اپنی حیثیت سے بڑھ کر ہے اور حقائق کے منافی بھی۔ ”ہم نے اگلی مدت کیلئے آدھی حکومت بنالی۔ اب وزیراعظم اوپر جا رہا ہے نہ اندر نہ باہر۔ مضبوط ترین وزیراعظم ہوں کوئی کیئر ٹیکر آئیگا نہ چیئرٹیکر۔ حکومتیں توڑی نہیں جا سکیں گی۔“ سینٹ الیکشن میں کامیابی پر تو حکمرانوں کو سجدہ شکر اور جو کچھ چار سال میں کیا‘ اس پر سجدہ سہو ادا کرنا چاہئے تھا۔ جبکہ وہ اسکے برعکس تکبر تفاخر اور نخوت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کڑا احتساب ہوا تو اندر جانا پڑےگا۔ اوپر جانے سے انکار نہ جانے کس برتے پر فرما رہے ہیں۔ موت تو اٹل حقیقت ہے‘ ہر کسی کو جانا پڑیگا۔ خواہ اسکی کرسی کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ اگرچہ بھٹو صاحب اوپر جا کر نیچے آئے اور پھر اوپر گئے۔ امریکہ کی ایک کال پر ٹانگیں لرزتی ہیں۔ فوج کی ”وضاحت“ پر زبان میں لکنت آجاتی ہے۔“ عوام پر عتاب اور عذاب بن کر نازل ہونا ایک ”مضبوط ترین وزیراعظم“ کی نشانی ہے تو مان لیا کہ گیلانی صاحب مضبوط ترین وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم گیلانی کو اپنے گرائیں شاہ محمود قریشی کی بے وفائی کا گلہ بھی ہے‘ فرماتے ہیں‘ ان کو کوئی نہیں جانتا تھا‘ میں نے ان کو حلقے میں روشناس کرایا۔ ایک وزارت کی خاطر انہوں نے اپنے محسنوں سے آنکھیں پھیر لیں۔“ لوگ تو یہ جانتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کے والد محترم سجاد حسین قریشی جس جنرل ضیاءکے گورنر تھے‘ اسی جنرل ضیاءکی کابینہ میں گیلانی بھی وزیر تھے۔ سیاست میں گیلانی صاحب کو جس جرنیل نے روشناس کرایا‘ کیا یہ ان کو آج بھی محترم سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں تو اسے احسان مندی کا کونسا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی والے فصلی بٹیروں کی طرح بکتے ہیں نہ جھکتے ہیں۔ اس قول کے جواب میں پیٹریاٹ گروپ کا تذکرہ لاحاصل سہی البتہ کل ہی پنجاب میں اسلم گل سینٹ کا الیکشن ہار گئے‘ زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ وفاداریاں بدلنے والوں کو سامنے لائینگے۔ یہ وفاداریاں بدلنے والے کیا بکے بھی نہیں اور جھکے بھی نہیں؟ اگر ایسا ہے ہی تو پھر بکنا اور جھکنا کس کو کہتے ہیں۔ آج پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم بننے والے جھکنے اور نہ بکنے کی اپنی طرز کی تعریف کرنیوالے یوسف رضا گیلانی کل ضرورت پڑنے پر 88ءوالی اپنی ہی تاریخ دہرانے کی گنجائش تو نہیں نکال رہے؟
No comments:
Post a Comment