About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, March 5, 2012

ایوارڈ

 مارچ,4, 2012


ایوارڈ
فضل حسین اعوان 
تقلید اور نقالی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا رشک اور حسد میں۔ جس طرح غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اسی طرح حسد اہلیت اور صلاحیت کو جلا ڈالتا ہے جبکہ رشک ان کو جِلا بخشتا ہے۔ تقلید تخلیق کی نئی راہیں کھولتی اور ترقی کے در وا کرتی ہے جبکہ نقالی کسی کے کام کو اپنے نام کرکے بدنامی کے دوام کا نام ہے۔ نقالی اور بھیڑ چال اپنے طرزعمل کے حوالے سے تقریباً ہم نام ہیں۔ مٹھائی کا آئٹم ڈھوڈا خوشاب کی سوغات ہے۔ یہ شاید کسی امین نامی مٹھائی والے کی ایجاد ہے۔ اس کا کاروبار کیا خوب چلا۔ ایک موقع تھا 20، 25 سال قبل خوشاب کے ایک ہی بازار میں ”امین کا خالص ڈھوڈا“ کے نام سے درجن بھر دکانیں تھیں۔ خالص دکان کونسی تھی اسکا اجنبی کو اندازہ نہیں ہوسکتا۔ ملتان میں ”حافظ کا سوہن حلوہ“ اسکے اصل اور خالص کی پہچان بھی ناممکن ہے۔ دیگر مصنوعات میں نقالی اور بھیڑچال کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ فلموں میں ایک موضوع پر کوئی فلم ہٹ ہوجائے تو فلم ساز ایسے ہی موضوع پر فلم بنانے کیلئے پلٹ کر جھپٹتے اور جھپٹ کر پلٹتے ہیں۔ شیدا ککڑ، بس کر گجرجیسے نام رکھ کر تہلکہ مچا دیا جاتا ہے۔شرمین عبید چنائے کی فلم ”سیونگ فیس“ کوئی فیچر فلم نہیں ہے۔ وہ چند منٹ کی دستاویزی فلم ہے۔ اسے آسکر ایوارڈ ملا۔ برادرم اجمل نیازی اسے پاکستان کیخلاف امریکہ کی پروپیگنڈہ مہم قرار دیتے ہیں جس میں دنیا کو پاکستان کا اجلا چہرہ دکھانے کے بجائے اسے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح پاکستان میں عورتوں کے چہرے پر تیزاب پھینک کر مظالم ہوتے ہیں۔ بہرحال شرمین ایک باصلاحیت خاتون ہے جس نے افغان جنگ کے حوالے سے بھی کام کیا ہے۔ سیونگ فیس ایوارڈ ملنے سے وہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں، انکی بھرپور پذیرائی ہورہی ہے۔ ایسے میں نقال بھی میدانِ عمل میں نکل آئے۔ شرمین عبید چنائے کو آج روایتی فلم سازوں کی طرف سے ہدایتکاری کیلئے بڑی بڑی اور بھاری بھاری پیشکشیں ہورہی ہیں حالانکہ سینماﺅں میں چلنے والی فیچر فلمیں انکی فیلڈ نہیں ہے۔
اجمل نیازی کا سیونگ فیس کو امریکہ کا پروپیگنڈہ اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دینے کے پس پردہ ایک طویل داستان ہے۔ یقیناً امریکہ اور مغرب پاکستان اور اسلام کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ رابندر ناتھ ٹیگور علامہ اقبالؒ سے پہلے پیدا ہوا اور بعد میں مرا۔ اسے 1913ءمیں ادب کا نوبل انعام ملا۔ علامہ اور ٹیگور کے قد کاٹھ، صلاحیتوں اور ادب میں خدمات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ علامہ کو نظرانداز کرنا مغرب کے اسی خبث کا شاخسانہ ہے جس کی نشاندہی نیازی صاحب نے کی ہے۔ پاکستان میں ثمر مبارک مند، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور منیر احمد خان جیسے عالمی شہرت کے حامل سائنسدانوں کی کمی نہیں لیکن نوبل انعام کیلئے انکی نظر صرف ڈاکٹر عبدالسلام پر پڑی.... کیوں؟ اس لئے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق ایک مخصوص فرقے کے ساتھ تھا۔ فاٹا میں خاتون پر کوڑوں کی فلم سامنے آئی تو مغرب نے اسے زندگی و موت کے مسئلے کی طرح پیش کیا۔ ڈرامہ بازی ثابت ہوئی تو چپ سادھ لی۔ قبل الذکر واقعہ سے پاکستان کی بدنامی مقصود تھی اس لئے اسے اچھالا۔ نیک نامی ثابت ہونے پر خاموشی انکے اندر کا کرودھ بغض اور کینہ تھا۔ امریکہ نے تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اسکی اپنی قوم و ملت سے غداری پر آسکر سے بڑا ایوارڈ و اعزاز اور شہرت تک دیدی ہے۔ دستاویزی فلمیں تو افغانستان میں امریکی مظالم پر بھی بنی ہیں۔ کشمیر میں بھارتی مظالم اور ڈرون حملوں میں مارے جانیوالوں کی حالت زار پر بھی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ انکو بھی آسکر ایوارڈ مل سکتاہے؟ نہیں، کبھی نہیں، قطعی نہیں.... آسکر ایوارڈ کے حصول کا ایک آسان فارمولا بھی ہے۔ اس کیلئے ضمیر کو سلانا اور شکیل آفریدی کا کردار اپنانا پڑتا ہے۔ آپ امن کی آشا پر ڈاکومنٹری بنائیں، پاک امریکہ تعلقات پر اپنی صلاحیتیں آزمائیں، مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی مداخلت ثابت کریں، بلوچستان میں مظالم دکھا کر حربیار مری اور براہمداغ بگتی کو ہیرو بنا دیں، امریکی ایوارڈ اور اعزازات اور شہرت آپکے قدموں میں ہوگی۔ شرمین کو چاہئے سیونگ فیس کی طرح اپنی صلاحیتیں کشمیر میں بھارتی مظالم، ڈرون حملوں کے متاثرین کی حالت زار جیسے موضوعات پر بھی آزمائیں۔ ان فلموں کو بھی آسکر ایوارڈ کیلئے بھجوائیں۔ پھر اسکا جو نتیجہ ہوگا، اس کا اندازہ ہے لیکن شرمین کیلئے اشکوں، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ متاثرین کی دعائیں آسکر سے بھی بڑا ایوارڈ ہوگا۔



No comments:

Post a Comment