5-4-2012
04-05-2012
لقمہِ حرام
ہمارے ہاں اکثر شعرا کی شاعری شراب اور شباب کے گرد گھومتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ان موضوعات پر اتھارٹی مانے جانے والے سخنوران عظام ان خرافات میں خود بھی مبتلا ہوں جن کو وہ حسین پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان کے کلام سے متاثر ہونے والے کئی لوگ اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں۔ ویسے تو کئی شعرا بلانوش بھی پائے جاتے ہیں مگر سب کے سب نہیں۔ ریاض خیر آبادی کا یہ شعر آج بھی زبان زدعام ہے۔
جامِ مے توبہ شکن توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
خیر آبادی نے کبھی شراب نہیں پی تھی۔ ہو سکتا ہے اس شعر کی ترغیب سے کئی شرفاءبہک گئے ہوں۔ ہر شرابی شاعروں کا ہی تراشیدہ نہیں ہے۔ گلیوں بازاروں میں گندی نالی کے کیڑوں اور بھوک سے مدہوش کتوں کی طرح بے سدھ پڑے شرابیوں کی بلانوشی کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ کئی سوچ سمجھ کر پیتے اور اسی کے سہارے جیتے ہیں۔ گوروں کے پینے پلانے کا انداز ان کے مطابق قدرے مہذبانہ ہے۔ شیمپئن سکاش جیسی بڑی بڑی مہنگی شرابیں موجود ہیں جو ہمارے ہاں بھی آسانی سے دستیاب ہیں۔ دام بنائے کام۔ پیسہ ہو تو جائز ناجائز ہر چیز حاضر‘ لیکن شراب دیسی ہو یا ولایتی‘ سستی ہو یا سونے کے بھاو مہنگی۔ اس کے بنانے کا طریقہ کار ایک جیسا ہی ہے۔ اس کے خمیر میں گند‘ غلاظت اور نجاست ہی نجاست ہے۔ شراب تبھی کشید ہوتی ہے جب مختلف خوردنی اشیاءکو گلا اور سڑا دیا جاتا ہے۔ جب ان اشیاءسے سراندھ اٹھنے لگے تو کشیدگی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ بہترین شراب وہ ہے جس میں گلنے اور سڑنے کے عمل کے دوران مخصوص کیڑا پیدا ہو جاتا ہے۔ اسلام نے ان چیزوں کو ہی حرام قرار دیا ہے۔ جن کی بنیاد حرام پر استوار ہوئی ہے۔ خنزیر کو روئے زمین پر نجس ترین مخلوق اسی لئے قرار دیا گیا ہے اس جیسا بے غیرت جانور کوئی دوسرا نہیں اور یہی واحد جانور ہے جو اپنی نجاست کو اپنی خوراک بھی بنا لیتا ہے۔ انگریز اس کا گوشت رغبت سے کھاتے ہیں جبکہ ہمارے لئے یہ انتہا درجے کا قابل نفرت اور حرام ہے۔ کچھ لوگ تو اس کا نام بھی زبان سے ادا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ حرام حرام ہے‘ وہ شراب ہو‘ سور کا گوشت ہو یا وہ لقمہ جو ہمارے کردار و عمل سے حرام کے زمرے میں آجائے۔ ارشاد خداوندی ہے۔ اے لوگو زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاو اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے سورہ البقرہ آیت نمبر168ارشاد نبوی ہے جس نے تھوڑا سا مال حرام کھایا تو اس کے پیٹ میں آگ دہکائی جائے گی۔ مزید فرمایا کہ بلاشبہ ”پل صراط پر آگ کی بیڑیاں ہیں“ جس نے حرام کا ایک درہم بھی لیا اس کے پاوں میں آگ کی بیڑیاں ڈالی جائیں گی جس سے پل صراط سے گزرنا دشوار ہو جائے گا۔ فرائض میں غفلت‘ رشوت‘ ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘ جھوٹی قسمیں کھا کر تجارت‘ ناپ تول میں کمی۔ پیشہ وروں کا کام کرتے وقت نیت میں کھوٹ‘ قصور وار کو بچانا اور بے قصور کو سزا دلوانا یہ حرام کمائی کی چند مثالیں ہیں۔ جو ہمارے معاشرے میں عام دیکھنے میں آتی ہیں۔ آج کچھ لوگ حرام کمائی سے دولت کے انبار لگا رہے۔ جائز اور ناجائز میں فرق مٹ سا گیا ہے۔ حق تلفی عروج پر ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ حرام نہ صرف ہضم نہیں ہوتا بلکہ کمائے ہوئے حرام سے بڑھ کر اور تکلیف کے ساتھ نکلتا ہے۔ انسان کو لگنے والی بیماری من جانب اللہ ضرور ہوتی ہے۔ یہ نیکوکاروں کے لئے آزمائش اور بدکاروں کے لئے اپنے کئے کی اسی جہاں میں بھی سزا اور دوسروں کے لئے درس عبرت ہوتی ہے۔ ایسے حرام خور بھی دیکھے گئے ہیں جو ناجائز کمائی سے من چاہے کھانے کھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ اوپر کی ساری کمائی اپنے‘ اپنی اولاد اور اہلیہ کی ادویات پر لگ جاتی ہے اربوں کھربوں رشوت اور کرپشن کی مد میں کمانے والوں کی زندگیوں کو قریب اور باریک بینی سے دیکھیں تو ان کی مسکراہٹ کے پیچھے بھی ایک غیر محسوس کرب چھپا ہوتا ہے۔ نوٹوں کی تجوریوں اور بوریوں پر بیٹھ کر ان کی حفاظت کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ کل اس دولت کا حساب نہ دینا پڑے گا یہی فکر ان کو گھائل کے ہوئے ہے۔ آج اقتدار کی مسند پر بیٹھے لوگ خود اور ان کی اولادوں تک لوٹ مار میں مصروف ہےں۔ تمام تر اختیارات پاس ہونے کے باوجود ان کی بدنامی اور عزت کا خاک میں مل کے رہ جانا کیا یہ کسی ذہنی اذیت سے کم ہے؟آج قوم بدترین حالات سے گزر رہی ہے اس کی وجہ بالادست طبقوں کا وسائل کو جبری طور پر اپنے استعمال میں لانا ہے۔ قوم کی دعائیں بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ہمیں اپنے اعمال کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارے حکمران ہمارا آئینہ ہیں یا ہم اپنے حکمرانوں کا آئینہ ہیں؟ ارشاد ہے کہ حرام کا ایک لقمہ کھانے سے چالیس دن تک دعا قبول نہیں ہوتی۔ ہماری دعا اور آہ و بکاء عرش تک کیوں نہیں پہنچ رہی؟ اس کے لئے خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment