حصار اور حفاظت
سر تا پا سیاہ برقعوں میں ملبوس تین خواتین جس انداز سے پارک میں داخل ہوئیں اس پر توجہ کا مرکوز ہونا فطری امر تھا۔ چھوٹی سی پارک کی آج کل ایک ہی انٹرنس ہے۔ پارک میں صبح دسیوں لوگ سیر کیلئے آتے ہیں ان میں خواتین مردوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوتیں۔ سرسبز پارک کے گرد چار سو میٹر کاچار پانچ فٹ چوڑا کچا ٹریک ہے جس پر سیر، واک یا جوکنگ کرنے والے ایک ہی سمت چلتے ہیں۔ ڈونگی پارک میں اُترتے ہی لوگ ٹریک پر رواں ہو جاتے ہیں۔ یہ خواتین اس کے برعکس گراﺅنڈ کے اندر داخل ہوئیں۔ یہ عید کے چوتھے روز صبح چھ سوا چھ بجے کا واقعہ ہے۔ ابھی سورج نے اپنی کرنیں نہیں بکھیریں تھیں، گھاس پر اوس کے قطرے موتیوں کی طرح موجود تھے۔ یہ عورتیں گھاس پر چند قدم چلتے ہوئے رکیں، اپنے نقاب اٹھائے تو چہرے برقعے جیسے کالے کپڑے سے سوائے آنکھوں کے ڈھانپے ہوئے تھے ۔انہوں نے ایک ہی ایکشن میں نقاب اٹھایا اورپلک جھپکتے میں پھر گرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی گراﺅنڈ کے بیچوں بیچ چلنا شروع کر دیا۔ اس پارک کے کبھی دو داخلی راستے ہُوا کرتے تھے، دوسرا حافظ سعید کی سکیورٹی کے باعث بندجزوی طورپر کر دیا گیا۔ اس انٹرنس کے ساتھ ہی مسجد توحید اور اس کے ارد گرد کہیں حافظ صاحب کا گھر ہے۔ جس کے گرد 2008ءکے ممبئی حملوں اور اس کا الزام حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں پر لگائے جانے کے بعدسکیورٹی ٹائٹ کرتے ہوئے پولیس تعینات کر دی گئی۔ حافظ صاحب کو نظر بندی کی صورت میں ان کا سرکاری عوضانہ،اعزازیہ یا خرچہ مقرر کر کے شاید یہیں رکھا جاتا ہے۔ پولیس کی اس پبلک پارک پر بھی نظر ہوتی ہے۔ پولیس سیر کیلئے آنے والوں کے معمولات میں مخل نہیںہوتی۔ ۔۔چند منٹ یہ خواتین مسجد کے سامنے کھڑی رہیں اور پھر چل دیں۔ یہ کوئی غیر معمولی باتنہیں تھی اس کا سیر کرنے والوں نے اگر نوٹس بھی لیا تو وہ سرسری سا تھا۔ وہ جس راستے سے داخل ہوئیں وہاں پہنچنے والی تھیں کہ پارک میں ایک ہلچل سی محسوس ہوئی، چند لمحوں بعد دیکھا کہ ایک بندوق بردار پولیس اہلکار اور ایک سول کپڑوں میں ملبوس نوجوان ان کی طرف بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی طرف متوجہ دو معززین نے بتایا کہ خواتین مسجد کی فوٹو گرافی کر رہی تھیں ان کے ساتھ دو مرد بھی تھے۔ پولیس اہلکار کے ساتھ جانے والا نوجوان جماعت الدعوة کا مجاہد تھا۔ انہوں نے اس قافلے کو روکا تو انہوں نے بتایا کہ وہ قریب ہی رہتے ہیں، کرائے کے گھر میں منتقل ہوئے دو تین ماہ ہوئے ہیں۔ ہم لوگ جہاں سیر کے لئے آئے تھے بچی نے اگر تصویر بنا لی ہے تو کیا ہُوا۔ یہ دونوں حضرات باریش تھے۔اس وقت تک مزید پولیس اہلکاراور ذمہ دار بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ پتہ چلا کہ موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو ڈیلیٹ کر دی گئی اور ان کو جانے دیا گیا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ پہلے یہ دو حضرات پارک میں داخل ہوئے، انہوں نے کلیرنس دی تو خواتین آگے بڑھیں۔ اس پارک سے عید سے قبل بھی ایک مشکوک شخص پکڑا گیا تھا۔
حافظ سعید کا بھارت کو مطلوب شخصیات کی فہرست میں سب سے اوپر نام ہے، وہ کشمیر میں حریت پسندی کو دہشت گردی کا نام دیکر اس میں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس نے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان، آئی ایس آئی، حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں پر ڈالی تھی۔ بھارت نے دنیا میں اس حوالے سے اس قدر واویلا کیا کہ امریکہ جیسا ملک بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ اس نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورے کے موقع پر خود صدر اوباما نے بھارتی مو¿قف کی تائید اور وکالت کرتے کی۔ سینیئر امریکی حکام نے کہا کہ حافظ سعید کے بارے میں پاکستان کو ٹھوس ثبوت دے دئیے ہیں۔ پاکستان جماعة الدعوة پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کا احترام کرے۔
بھارت حافظ سعید کی سانسوں سے بھی خائف اور ان کو چھین کیلئے سرگرداں ہے، اس کی ایجنسیاں حافظ صاحب کے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔ حافظ صاحب تک رسائی میں ناکام رہیں تو جماعةالدعوہ کے فعال رہنما خالد بشیر کو رواں سال مئی کے وسط میں لاہور سے اغوا کیا اورسفاکانہ طریقے سے قتل کر کے نعش شیخوپورہ نہر میں پھینک دی۔ان کے ناخن کھنچے ہوئے ، ہڈیاں ٹوٹی ہوئیںاور آنکھوں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔قاتل گرفتار ہوئے۔ تحقیق اور تفتیش سے ثابت ہُوا کہ قتل کا ماسٹر مائنڈ دبئی میں اور پلاننگ ”را“ نے کی تھی۔ ”را“ جیسی ایجنسیاں ایسی کارروائیاں کرتی رہتی ہیں لیکن جو کچھ سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے کیا ایسا کوئی فوج نہیں کرتی۔ وی کے سنگھ نے حافظ سعید تک رسائی کیلئے فوج میں”ٹیکنیکل سروسز ڈویژن“ کے نام سے ایک یونٹ بنایاتھا۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سابق آرمی چیف وی کے سنگھ کی جانب سے 26 نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بنائے جانے والے انٹیلی جنس یونٹ (ٹیکنیکل سروسز ڈویژن) نے حافظ سعید کے قریبی ساتھیوں تک رسائی کے لئے پاکستان میں تعلقات قائم کررکھے تھے اور اس یونٹ نے پاکستان میں کئی خفیہ آپریشنز بھی کئے۔ سابق بھارتی آرمی چیف کا کہناہے کہ ہم حافظ سعید تک پہنچنے والے تھے کہ وہ یونٹ ختم کر دیا گیا۔ یہ یونٹ موجودہ بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ان الزامات پر توڑا کہ اس میںکرپشن ہوئی ۔ سابق آرمی چیف کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔
اوباما نے حافظ سعید اور جماعت الدعوة کے خلاف پابندیوں کی بات بغیر تحقیق کے کر دی، شاید بھارت کو خوش کرنا مقصود تھا۔ عالمی سطح پر حافظ سعید اور ان کے متعدد ساتھیوں پر پابندی ہے، ان کی جماعت کے اکاﺅنٹس نہیں کھل سکتے، اسلحہ لائسنس کا اجرا ممنوع اور ٹریولنگ پر پابندی ہے۔ پاکستان میں بھی ان عالمی پابندیوں کا اطلاق ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جماعت الدعوة کو دینی جماعت قرار دیا گیا ہے اس رو سے اسے اجتماعات اور فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت بھی ہے۔ بہرحال حکومتی اور جماعتی سطح پر حافظ سعید کی ممکنہ حد تک حفاظت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھارت کی تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ بھارت نے زیادہ زور دیا تو امریکہ شاید ڈرون برسانے پر آمادہ ہو جائے۔ پاکستان کی طرف ایسا اقدام ہضم نہ ہونے کے خدشے کے باعث شاید امریکہ بھارت کی محبت میں اس حد تک نہ جائے۔ بھارت البتہ دیگر ذرائع استعمال کر سکتا ہے اور یقیناً کر بھی رہا ہو۔
آج دنیا کی چار ارب میں سے ایک تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے اگر غداری کا عنصر مائنس ہوتا تو بلاشبہ آج یہ آبادی نصف سے زیادہ ہوتی۔ حافظ صاحب کا حفاظتی حصار بڑا مضبوط ہے ۔دشمن اس میں نقب لگانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔ غداروں کی خدمات کے بغیر دشمن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جماعت الدعوة کو حفاظتی حصار کی ایک ایک اینٹ پر ہمہ وقت نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
حافظ سعید کا بھارت کو مطلوب شخصیات کی فہرست میں سب سے اوپر نام ہے، وہ کشمیر میں حریت پسندی کو دہشت گردی کا نام دیکر اس میں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس نے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان، آئی ایس آئی، حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں پر ڈالی تھی۔ بھارت نے دنیا میں اس حوالے سے اس قدر واویلا کیا کہ امریکہ جیسا ملک بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ اس نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورے کے موقع پر خود صدر اوباما نے بھارتی مو¿قف کی تائید اور وکالت کرتے کی۔ سینیئر امریکی حکام نے کہا کہ حافظ سعید کے بارے میں پاکستان کو ٹھوس ثبوت دے دئیے ہیں۔ پاکستان جماعة الدعوة پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کا احترام کرے۔
بھارت حافظ سعید کی سانسوں سے بھی خائف اور ان کو چھین کیلئے سرگرداں ہے، اس کی ایجنسیاں حافظ صاحب کے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔ حافظ صاحب تک رسائی میں ناکام رہیں تو جماعةالدعوہ کے فعال رہنما خالد بشیر کو رواں سال مئی کے وسط میں لاہور سے اغوا کیا اورسفاکانہ طریقے سے قتل کر کے نعش شیخوپورہ نہر میں پھینک دی۔ان کے ناخن کھنچے ہوئے ، ہڈیاں ٹوٹی ہوئیںاور آنکھوں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔قاتل گرفتار ہوئے۔ تحقیق اور تفتیش سے ثابت ہُوا کہ قتل کا ماسٹر مائنڈ دبئی میں اور پلاننگ ”را“ نے کی تھی۔ ”را“ جیسی ایجنسیاں ایسی کارروائیاں کرتی رہتی ہیں لیکن جو کچھ سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے کیا ایسا کوئی فوج نہیں کرتی۔ وی کے سنگھ نے حافظ سعید تک رسائی کیلئے فوج میں”ٹیکنیکل سروسز ڈویژن“ کے نام سے ایک یونٹ بنایاتھا۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سابق آرمی چیف وی کے سنگھ کی جانب سے 26 نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بنائے جانے والے انٹیلی جنس یونٹ (ٹیکنیکل سروسز ڈویژن) نے حافظ سعید کے قریبی ساتھیوں تک رسائی کے لئے پاکستان میں تعلقات قائم کررکھے تھے اور اس یونٹ نے پاکستان میں کئی خفیہ آپریشنز بھی کئے۔ سابق بھارتی آرمی چیف کا کہناہے کہ ہم حافظ سعید تک پہنچنے والے تھے کہ وہ یونٹ ختم کر دیا گیا۔ یہ یونٹ موجودہ بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے ان الزامات پر توڑا کہ اس میںکرپشن ہوئی ۔ سابق آرمی چیف کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔
اوباما نے حافظ سعید اور جماعت الدعوة کے خلاف پابندیوں کی بات بغیر تحقیق کے کر دی، شاید بھارت کو خوش کرنا مقصود تھا۔ عالمی سطح پر حافظ سعید اور ان کے متعدد ساتھیوں پر پابندی ہے، ان کی جماعت کے اکاﺅنٹس نہیں کھل سکتے، اسلحہ لائسنس کا اجرا ممنوع اور ٹریولنگ پر پابندی ہے۔ پاکستان میں بھی ان عالمی پابندیوں کا اطلاق ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جماعت الدعوة کو دینی جماعت قرار دیا گیا ہے اس رو سے اسے اجتماعات اور فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت بھی ہے۔ بہرحال حکومتی اور جماعتی سطح پر حافظ سعید کی ممکنہ حد تک حفاظت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھارت کی تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ بھارت نے زیادہ زور دیا تو امریکہ شاید ڈرون برسانے پر آمادہ ہو جائے۔ پاکستان کی طرف ایسا اقدام ہضم نہ ہونے کے خدشے کے باعث شاید امریکہ بھارت کی محبت میں اس حد تک نہ جائے۔ بھارت البتہ دیگر ذرائع استعمال کر سکتا ہے اور یقیناً کر بھی رہا ہو۔
آج دنیا کی چار ارب میں سے ایک تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے اگر غداری کا عنصر مائنس ہوتا تو بلاشبہ آج یہ آبادی نصف سے زیادہ ہوتی۔ حافظ صاحب کا حفاظتی حصار بڑا مضبوط ہے ۔دشمن اس میں نقب لگانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔ غداروں کی خدمات کے بغیر دشمن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جماعت الدعوة کو حفاظتی حصار کی ایک ایک اینٹ پر ہمہ وقت نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment