About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, October 12, 2013

کیانی فوبیا

کیانی فوبیا

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
10 اکتوبر 20130
Print  
کیانی فوبیا
جنرل کیانی کو اپنی تین سال کی توسیعی مدت پوری کرنے پر 29 نومبر کو ریٹائر ہونا ہے۔ حکومت کو ان کی مدت ملازمت میں مزید توسیع کا اختیار ہے۔ ریٹائرمنٹ کیلئے تو ایک عمر مقرر ہے۔ توسیع در توسیع کیلئے ایسی کوئی قید نہیں۔ جمہوری ممالک ہی پر موقوف نہیں آمریت اور ملوکیت میں بھی بڑے عہدوں پر تقرریاں بروقت کر دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں مخصوص حالات میں آرمی چیف کو خصوصی اہمیت حاصل ہے لیکن اس سے تقرری کے معمولات میں فرق نہیں پڑتا۔ نواز حکومت آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ قومی معاملات میں معمولی سی دلچسپی رکھنے والے بھی کیانی فوبیا میں مبتلا نظر آئے۔ مشرف کو میاں نواز شریف نے اپنا ”حق “(میاں صاحب اپنے اختیار کو بھی حق کہتے ہیں)استعمال کرتے ہوئے ہٹانے کی کوشش کی جس پر بات قید‘ مقدمات جیل اور جلاوطنی تک جا پہنچی۔ لگتا ہے میاں صاحب کی ان اذیتوں اور صعوبتوں کے بعد قوت فیصلہ سلب یا مصلوب ہو گئی ۔ انکو شاید اپنے وزیراعظم ہونے کا یقین نہیں آرہا۔ مرکزی معاملات پر شہباز شریف کی نظر اور پنجاب میں اختیارات پر حمزہ کا ہاتھ ہے ۔ وقت نیوز میں ایک کالر نے شیروں کی جوڑی کے حوالے سے کہا کہ اب ملک اور عوام ترقی و خوشحالی کی راہ پر چل پڑینگے کیوں کہ ایک ،ایک اور دو گیارہ ہوتے ہیں.... اب یہ کہنا ہی درست ہے کہ دو 11 اور تین 33 ہوتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے نو رتن ہیں یا سو‘ پانچ پیارے ہیں یا پچاس‘ بے شک دو 11 سے 3‘ تنتیس ہو گئے ہیں مگر فیصلہ سازی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ چیئرمین نیب کی تقرری کو حکومت اور اپوزیشن نے اپنے لئے کڑی آزمائش بنا لیا۔ یہ کام حکومت میں آنے اور اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے ساتھ ہی شروع ہو جانا چاہئے تھا۔ چیئرمین نیب کی تلاش میں تین ماہ لگ گئے۔ چیئرمین جائنٹ سروسز جنرل شمیم وائیں 7 اکتوبر کو ریٹائر ہو گئے ان کی جگہ تقرری ہی نہیں کی گئی‘ عارضی طورپر یہ عہدہ جنرل کیانی نے سنبھال لیا۔ اس تقری پر بھی کیا ن لیگ کو چیئر مین نیب چودھری قمر الزمان کی تقرری جتنا عرصہ درکار ہوگا ؟ میاں نواز شریف 1990ءمیں اقتدار میں آئے توجنرل اسلم بیگ کے متبادل کا اعلان ان کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ قبل کر دیا تھا۔ شاید اس وقت شیر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکاتھا ۔جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل مشرف کو جھنڈی دکھاتے وقت شیر کی جوانی عنفوان شباب پر تھی اور اب شیر بوڑھا ہو چکا ہے جبکہ سو رتن اور پچاس پیارے دام بنانے والے کام میں مگن ہیں۔ کسی کو بجلی کی قیمتیں بڑھانے‘ کسی کو پٹرول اور ڈالر مہنگا کرنے کی فکر ہے ۔ایک وزیر نے کہہ دیا کہ چار ماہ سی این جی سٹیشن بند رکھیں گے۔ ہور چوپو.... گورننس ایسی ہی رہی تو نواز لیگ کیلئے پورا ملک فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ثابت ہو گا جہاں شیر علی کے شہر سے شیر کی دم پر صوبائی سیٹ میں ”شرلی“ پھینک دی گئی۔
جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کئی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ امریکی اخبار ان کو جوائنٹ سروسز چیف بنانے کی خبریں دے رہے تھے۔ اتوار 6 اکتوبر کو پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات فرخ جاوید مون اور توفیق بٹ کی دعوت پر صحافی اکٹھے ہوئے ۔ لمبی میز کی سائیڈوں پر بیٹھے صحافی ،گروپوں میں بحث کر رہے تھے۔ عطاءالرحمن‘سلمان غنی‘ نوید چودھری اور علیم خان کے مابین بھی کچھ دیر کےلئے جنرل کیانی کی شخصیت زیر بحث رہی۔ عطاءالرحمن نے تاریخی حوالے سے بتایا کہ آرمی چیف کو دی گئی توسیع یا میرٹ سے ہٹ کر تقرری حکمرانوں کو کبھی راس نہیں آئی۔ فیروز خان نون نے ایوب کو توسیع دی اور وہی ان کا نشانہ بنے۔ عطاءالرحمن کا تجزیہ درست ،تاہم زرداریوں کو جنرل کیانی کو دی گئی توسیع بڑی راس آئی۔ سلمان غنی کا کہنا تھا کہ مزید ختیارات کے ساتھ جنرل کیانی کو جائنٹ سروسز چیف کا چیئرمین بنایا جا سکتا ہے۔میرا موقف تھا کہ جائنٹ سروسز کو مزید کیا اختیارات دئیے جا سکتے ہیں؟ جتنے بھی اختیارات دے دیں آرمی چیف کی ایک اپنی حیثیت ہے اور اس کی طاقت کا منبع وہ چھڑی ہے جو ریٹائر ہونے والا اس کے حوالے کر کے جاتا ہے اور فوج کی ہر یونٹ اس کیلئے ٹرپل ون بریگیڈ کی طرح طاقتور ہوتی ہے۔
جنرل کیانی نے خود اعلان کرکے حکومت کو ایک مخمصے سے نکالنے کی کوشش کی‘ شاید حکومت خود اس دلدل سے نہیں نکلنا چاہتی۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ جنرل کیانی نے ریٹائرمنٹ کی خواہش ظاہر کی حتمی فیصلہ حکومت نے کرنا ہے گویا حکومت ان کی خدمات سے مزید مستفید اور مستفیض ہونا چاہتی ہے۔ جو انسان دنیا میں آیا اس نے مرنا اور جس نے نوکری کی اس نے ریٹائر ہونا ہوتا ہے‘ یہی حقیقت ہے۔ جنرل کیانی تین سال قبل ریٹائر ہو جاتے تو بہتر تھا۔ تین سال میں ان کی شخصیت مزید متنازعہ ہوئی ہے ۔ کیا وہ جنرل اسلم بیگ کی طرح کی سکیورٹی پر قناعت کرینگے یا باقی زندگی جنرل مشرف کی طرح دہشت گردوں سے چھپ کر گزاریں گے؟
موجودہ حکومت ان کو تمغہ جمہوریت عنایت کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ جمہوری ممالک میں جمہوریت کی کار فرمائی میں فوج کا قطعی کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔ یہ ”عزت یا بدعت“ پاکستان ہی میں پائی جاتی ہے۔ جنرل کیانی نے جس قسم کی جمہوریت کی پانچ سال پشت پناہی ‘سرپرستی اور پرورش کی، وہ قوم کے پر احسان نہیں ظلم ہے۔ فوج پر حکمرانوں کی طرف زد پڑی تو آنکھیں دکھانے سے گریز نہیں کیا۔ کیری لوگر بل میں فوج کیخلاف شرائط‘ آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے اور میمو سکینڈل پر فوج کا اشتعال ضبط سے باہر تھا۔ قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا جاتا رہا ، عدالتی فیصلوں کی تضحیک ہوتی رہی‘ اس پر خاموشی کیوں؟ جنرل کیانی یا تو ہر معاملے میں جمہوریت کے سامنے سر جھکائے رکھتے یا پھر ہر بے ضابطگی‘ بدنظمی اور ملکی سلامتی و مفاد کے خلاف اقدامات پر وہی کرتے جوفوج کے مفادات کیخلاف ہونیوالے فیصلوں یا اقدامات پر کیا ۔
اس دنیا میں کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں۔ روئے زمین کا سینہ ایسی ہستیوں سے ہی بھرا پڑا ہے جن کو ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔ کوئی ادارہ بانجھ نہیںہے۔ نواز شریف اپنے اختیارات‘ صوابدید اور حق کے چکروں میں نہ پڑیں جو سینئر ہے اسے اس کا حق دیں۔جنرل راشد کی گرومنگ ہی آرمی چیف کے طور پر ہوئی ہے ۔
جنرل کیانی نے گذشتہ تین سال میں اپنے کندھوں پر ناگواریوں اور ناہمواریوں کا بوجھ بڑھا لیا ہے۔ اس کے سبب ان کا شاید پاکستان میں معمول کی سکیورٹی میں رہنا ممکن نہیں۔ وہ اسی پر بس کریں۔ حکومت ان کو توسیع دینے کی کوشش کرے تو بھی ہاں نہ کریں۔ اگلے تین یا پانچ سال بعد کی نسبت آج کی ریٹائرمنٹ باعزت ہے۔

No comments:

Post a Comment