About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, October 1, 2013

نفاذ شریعت.... طالبان ،مذاکرات اور آئین


نفاذ شریعت.... طالبان ،مذاکرات اور آئین

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان








01 اکتوبر 20131
Print  
نفاذ شریعت.... طالبان ،مذاکرات اور آئین
تنظیمِ اسلامی نے صحافیوں کی ایک گیدرنگ کی۔ غالباً پندرہ سولہ کو بلایا تھا، اندازہ وہاں لگی نشستوں کو دیکھ کر ہوا لیکن صرف تین ہتھے چڑھے ،چوتھے کو شایدکورم پورا کرنے کیلئے خصوصی درخواست کر کے آمادہ آمد کیا گیا۔حافظ عاکف سعید اپنے والد محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے مشن کی تکمیل کیلئے اپنی تمام تر صلاحیت ،استعداد اور استطاعت کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ ہم لوگ عابد تہامی، اسرار بخاری اور شہباز انور کوحافظ عاکف سعید اور انکے رفقاءایوب بیگ مرزا، وسیم احمد اور دیگر نے خوش آمدید کہا۔حاظرین کی قلت کے باعث تنظیم اسلامی کی یہ میٹنگ ایک مذاکرے کی شکل اختیار کر گئی۔حافظ عاکف نے جو افتتاحی کلمات ادا کئے۔ ساری گفتگو انہی کے گرد گھومتی رہی۔ انہوں نے کہا ”آج ہم پاکستانی بدترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ تمام بحرانوں، مشکلات اور مصائب کا ایک ہی حل، شریعت کا نفاذہے۔“ ہمارے ہاں اپنے اپنے طور پر کئی جماعتیں نفاذ شریعت کیلئے کوشاں ہیں اگر تمام کی تما م متحد ہو جائیں تو اسی جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے وہ شریعت کے نفاذ کی منزل حاصل کر سکتی ہیں۔ عاکف سعید ان جماعتوں کے اتحاد کیلئے کوشاں تو ہیں لیکن وہ اس حوالے سے کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ ”پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذ شریعت کا راستہ احتجاج اور انقلاب ہے۔“
پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا،ایک طبقہ اکثریت میں ہے یا اقلیت میں،وہ نبی آخرالزماں پر نازل ہونیوالے ضابطہ حیات کے نفاذ کی بات کرتا ہے۔ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے شریعت کے نفاذ کی جدوجہد کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں ایسا ہی کر رہی ہیں۔ اگر وہ جمہوری طریقے سے ایسا کرلیں تو کسی طرف سے مخالفت کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ایسا چونکہ ممکن نہیں ہے اس لئے کسی اور مقصد کیلئے متحد ہونیوالے لوگوں نے اسلحہ اٹھایا اور نفاذ شریعت کو بھی اپنے مقاصد میں شامل کرلیا۔آج وہ ریاست تک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ان پر پاک فوج جدید ترین اسلحہ اور اعلیٰ تربیت کے باوجود بھی قابو نہیں پاسکی جبکہ سیاسی قیادت پر ان کا خوف طاری ہے۔اسی خوف کے باعث پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی اپنی انتخابی مہم چلانے میں بے بس رہیں جبکہ فوج اور امریکہ کے دباﺅ کے باوجود نواز لیگ اور پی ٹی آئی اپریشن پر آمادہ نہیں ہیں۔طالبان متحد ہیں یا منتشر، خواہ وہ بہت سے گروپوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے لیکن نظر نہ آنے کے باوجود ایک حقیقت ہیں۔ انکی شدت پسندانہ کارروائیوں سے نفرت کے باوجود نفاذ شریعت کے مطالبے کی نہ صرف مذہبی جماعتیں و تنظیمیں بلکہ عام سیاسی جماعتوں کے کئی حامی بھی حمایت کرتے ہیں۔ صرف اس ایک مطالبے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے اس پر عمل کیلئے اختیار کئے گئے طریقہ کار کو سب تو نہیں کئی نامناسب بھی سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی قیادتیں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر ملک میں امن قائم کرنے کی خواہاں ہیں۔ اے پی سی بلا کر غیر مشروط مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی گئی ۔طالبان نے اس کا اپنی شرائط، اپنے قیدیوں کی رہائی، ڈرون حملوں کی بندش اور امریکی جنگ سے علیحدگی کے ساتھ خیرمقدم کیا۔۔۔۔ اسکے ساتھ ساتھ انکے پاکستان کے مفادات پر حملے بھی جاری رہے جس پر عسکری و سیاسی قیادت کا شدید ردّعمل سامنے آیا۔ میاں نواز شریف نے امریکہ میںجاکر بیان دیا ” طالبان پاکستانی آئین تسلیم کریں وہ ہتھیار ڈالیں۔ اگر طالبان یہ سب تسلیم کرلیں تو پھر کوئی مسئلہ باقی رہتا ہے نہ مذاکرات کی ضرورت۔ طالبان کی شرائط ماننا حکومت کے اختیار میں نہیں ہے۔ سرِدست وہ ڈرون حملے بند کرانے میں بے بس ہے۔ امریکہ کی جنگ سے نکلنے کو خسارہ سمجھا جاتا ہے۔ میاں صاحب امریکہ کی دشمنی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں، امریکہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کرنے کا کبھی ارادہ باندھتا اور کبھی توڑتا ہے ۔ میاں صاحب اس جنگ سے اس وقت نکلنے کو وہ عصر کے وقت روزہ توڑنے کے مصداق قرار دے سکتے ہیں۔
اگر طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں تو عمران خان کی ان کیلئے دفتر کے قیام کی تجویز بجا ہے اسکے ساتھ ان کو ایک جگہ جمع ہونے کی سہولت دینااورتحفظ کی یقین دہانی بھی کرانا ہوگی۔عسکری و سیاسی قیادتوں کیلئے شدت پسند وہ نوالہ بن چکے ہیں جسے نگلا جاسکتا ہے نہ اُگلا۔شدت پسندوں کے ساتھ جنگ بھنوراور دلدل کی صورت اختیار کر گئی ہے۔
شدت پسندوں کا سب سے بڑا ہتھیار خودکش بمبار اور حمایت کا سب سے بڑا جواز اسلام کا نام ہے۔ شدت پسندوں کے درمیان فوج یا حکومت کے ایجنٹ کا گھسنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے جبکہ شدت پسنداور انکے حامی آرمی، ائرفورس، نیوی سمیت ہر سیکورٹی ادارے اور سیاستدانوں ہی نہیں کابینہ اور بیوروکریسی کی صفوں میں بھی موجود ہیں۔ شدت پسند وں کا موقف درست ہے یاغلط، حقیقت یہ ہے کہ ایک بہت بڑی آبادی انکے سحر میں گرفتار ہے۔یہ طلسم توڑے بغیر ان کو نابود کرنا ممکن نہیں۔کیا فوج کے پاس اس جادو کا کوئی توڑ ہے؟ اگر نہیں تو پھر مزید کتنی شہادتیں پیش کی جاسکتی ہیں؟شدت پسندوں کا نفاذ شریعت کا مطالبہ اپنی حمایت کے حصول کا اگر سٹنٹ بھی ہے تو ہر فرد کو اس کا کس طرح یقین دلایا جا سکتا ہے؟اگر یقین دلا کر انکی حمایت ختم نہیں کی جاتی تو قیامت تک بھی ان کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ایسے میں کیا کرنا چاہیے یہ سیاسی و عسکری ماہرین، عمائدین اور اکابرین کی عقل و دانش اور حکمت کا امتحان ہے۔ آئین تسلیم کرانے کی شرط رکھنے والے خود آئین کی کہاں تک پاسداری کرتے ہیں؟ جرنیلوں نے تین بار آئین توڑا۔ جمہوری حکومتیں آئین کے مطابق سود کا خاتمہ نہ کر سکیں۔ اعلیٰ سطح پر غیر قانونی تقرریاں، سپریم کورٹ آج بھی کالعدم قرار دے رہی ہے۔ بلدیاتی الیکشن سے گریز کس آئین پر عمل کا آئینہ دار ہے۔ نفاذ شریعت کی بات کرنیوالے کیا اپنی ذات اور خاندان پر اس کا نفاذ کرتے ہیں۔
ایک سول اٹھایا جاتا ہے کہ اگر پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو کس مسلک کا اسلام نافذ ہوگا؟ اس کا حل مشکل نہیں ہے۔ سعودی عرب میں جو نظام رائج ہے اسکی مخالفت بھی ہوئی۔ بالآخر ہزاروں صد ہزار انجم سے سحر پیدا ہوگئی۔ آج وہاں کوئی مقابل نظام اور مسلک نہیں۔ قبل ازیں خانہ کعبہ میں چار مصلے ہوا کرتے تھے۔ ایران میں بھی مخالفین اُٹھا دیئے گئے۔کمال اتاترک نے مناظرے کا جھانسہ دے کر ہزاروں علما ءکو جہاز میں بٹھا کر سمندر برد کر دیا۔ وہاں آج تک کبھی فرقہ واریت نے سر نہیں اُٹھا۔ پاکستان میں تمام مسالک کو متحد کرنے کی ایک کوشش کی جائے۔ جو اتحاد اور اتفاق سے بغاوت کریں اس نوبل کاز کے سامنے ایک ”شپ“ کی قیمت زیادہ نہیں۔

No comments:

Post a Comment