پیر
اچھا خاصا چلتا ہواکاروبار خسارے میں چلا گیا۔ نوبت فاقوں تک آتی دیکھ کر بڑے قرض کا قصد کیا۔ بنک گارنٹی موجود نہیں تھی تو ایک دوست کو ساتھ لے کر یہ علاقے کے معروف سیٹھ کی چوکھٹ پر حاضر ہو گیا۔ اس نے پرتپاک استقبال کیا۔ اپنے گھر اور در تک آنے کی وجہ سے وہ واقف تھا۔ اس لئے ضرورت پوچھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے وہ ناصحانہ انداز میں گویا ہوا” میں سود پر رقم دینے سے پہلے کچھ حقائق آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔“ اس کے ساتھ ہی دودھ کے 2 گلاس منگوائے اور یہ کہتے ہوئے ہمیں پیش کئے کہ میں قرض دینے سے قبل اپنے کلائنٹس کا من دودھ پلا کر پاک کرتا ہوں۔ اس کے بعد اس نے جو کچھ کہا وہ سود پر پیسے دینے والے عموماً نہیں کہا کرتے۔ اس کا کہنا تھا ”بنک سے آپ سود پر پیسے لیں تو وہ اگلے ماہ سے قرض کی سود سمیت واپسی قسطوں میں شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا طریقہ ذرا مختلف ہے۔ ہم قرض اپنی رقم کی واپسی کے لئے نہیں دیتے صرف سود کی وصولی کے لئے دیتے ہیں۔ سود کی رقم قرضدار کو یکمشت لوٹانی ہوتی ہے ،جب بھی اس کے پاس ہو۔ اس وقت تک اسے ہر ماہ سود ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران جتنے ماہ سود کی ادائیگی نہ ہو وہ رقم بھی قرض میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس شکنجے سے صرف جائیداد بیچ کر ہی کوئی نکل سکتا ہے۔ اگر اس کے پاس کوئی جائیداد ہو تو۔ میرا تو یہ کاروبارہے، اس کی اونچ نیچ سے آپ کو آگاہ کر دیا۔ اب بتاﺅ کتنا قرض چاہئے؟ بہتر ہے کہ ایک دو دن مزید سوچ لو“
قرض کی حسرت لے کر سود خور کے در پر آنے والے دوستوں نے آخری فقرے کو زیادہ اہمیت دی اور وہاں سے اٹھ آئے۔ خراد کی ورکشاپ کے مالک کو سود پر قرض کے سوا کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا ۔سوچا اگلے دن پھر اسی آستاں پر چلا آئے گا۔ اس کے ساتھی نے کہا کہ آﺅ تمہیں ایک اللہ کے نیک بندے سے ملاﺅں، شاید کوئی راستہ نکل آئے۔ اب دونوں ایک بڑی کوٹھی کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ بیل دی، گیٹ ملازم نے کھولا اور بغیر کچھ پوچھے دونوں کو ڈرائنگ روم میں لا کر بٹھا دیا۔ چند لمحوں میں صاحب خانہ تشریف لے آئے۔ حالات کے ستائے ہوئے شخص نے ان کو پیر سمجھتے ہوئے عرض کی کہ کاروبار میں گھاٹے پر گھاٹا پڑ رہا ہے۔ ۔۔بابا جی نے ہاتھ کے اشارے سے مزید بات کرنے سے منع کیا۔ اس دوران دو تین مزید مرید قسم کے لوگ بھی وہاں چلے آئے۔ ملازم نے سب کو ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس دوران ایک جھٹکے میں بجلی بند ہوئی دوسرے میں جنریٹر چلا اور ڈرائنگ روم پہلے کی طرح پھر جگمگا اٹھا۔ فریادی کہتا ہے اس موقع پر اسے یہ شعر بے طرح سے یاد آیا ....
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اس کے خیالات کا تانتا بزرگ کے ان الفاظ سے ٹوٹا ”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ مدد کرے گا۔ یہ عہد کرو کہ جھوٹ نہیں بولو گے اور کبھی سود پر قرض نہیں لو گے“ اس نے صدق دل سے عہد کیا۔ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ اگلے روز ورکشاپ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ یہی روٹی روزی کا اڈا تھا جو اب ویران ہو کر کھانے کو دوڑتا تھا۔ بڑے حوصلے سے گھر سے نکلا ہی تھاکہ موبائل پر دس لاکھ کا آرڈر مل گیا۔ پارٹی نے دو لاکھ ایڈوانس لے جانے کو کہا یوں وہ دو لاکھ وصول کرکے ورکشاپ گیا اور شام کو اسی دوست کو ساتھ لے کر پیر صاحب کے دولت خانے پر مٹھائی اور 5 ہزارکے ساتھ حاضر ہوا اور نذرانہ پیش کرتے ہوئے ماجرا سنایا ۔ پیر صاحب نے فرمایا تمہیں تو خود پیسوں کی ضرورت ہے،ایہیں اپنے پاس رکھو۔ مٹھائی اپنے بچوں، عزیزوں اور دوستوں کو جا کر کھلاﺅ۔۔ پیر صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ 25 مربعے کے مالک بڑے زمیندار ہیں۔ نذر نیاز قبول نہیں کرتے۔ لوگوں کو سچائی کا درس دیتے ہیں ۔یہی ان کا مشن ہے۔
آج پیری مریدی ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اصل اور نقل میں پہچان نہیں رہی۔ اب تو پیر صاحبان ٹی وی پر آ کر بھی اپنی رونمائی کرتے ہیں۔ کالموں میں تذکرے ہوتے ہیں۔ہم پھونکیں مارنے والوں اور کرامات دکھانے کے دعویداروں ہی کو پیر سمجھتے ہیں۔پیر وہ بھی ہے جو راہِ راست دکھا دے ،لوگوں کو گمراہی کی تاریکی سے نکال دے اور کامیاب زندگی کا گُر بتا دے ۔ پیر کی تلاش میں کئی لوگ عموماً ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
ایک پیر کی روداد ایک بڑے صحافی نے سرمحفل سنائی۔ ”عمران خان لفٹر سے گرے تو ان کی ریڑھ کی ہڈی کے اپریشن کے لئے ڈاکٹروں کی متضاد رائے تھی۔ کچھ ڈاکٹروں کا اپریشن کرنے پر اصرار تھا۔ عمران خان کو اس تذبذب سے ایک فون کال نے نکالا ”اپریشن نہ کرانا“ فون کرنے والے کا آدمی بھی تھوڑی دیر بعد پہنچ گیا جس نے دوا پہنچائی شاید کوئی ورد بھی بتایا ۔ ڈاکٹر اور میڈیکل سائنس عمران خان کے ٹیسٹوں کے بعد کہتی تھی عمران کو نارمل زندگی کی طرف آنے میں دوتین سال لگیں گے۔ عمران خان تو چار پانچ ہفتے بعد ہی کمر پر بیلٹ باندھ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ مزید علاج کے لئے لندن گئے۔ ڈاکٹروں نے وہاں چیک اپ کیا ٹیسٹ لئے اور ہسٹری دیکھی۔ عمران خان کے اپنے ہسپتال کے ٹیسٹوں نے مہروں میں جو نشاندہی کی تھی لندن کے ٹیسٹوں میں اس کا نام و نشان نہیں تھا۔ لندن میں ڈاکٹروں نے اپنے ٹیسٹوں کی بنیاد پر کہا کہ پاکستان سے آئی رپورٹوں میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہوتا تو عمران کو عام زندگی کی طرف لوٹنے میں طویل عرصہ چاہیے تھا۔ ہمارے ٹیسٹوں کے مطابق ایسا کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیلٹ کو غیر ضروری قرار دے کر اسے اتروا دیا“
عمران کا پیر جہلم میں رہتا ہے نام اور پتہ کیا ہے شاید مجیب الرحمن شامی صاحب بتا سکیں۔ یہ روداد انہوں نے گوجرانوالہ میں فاروق عالم انصاری کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر لاہور سے جانے والے صحافیوں کو سنائی جو میزبان کے بتائے ہوئے وقت کے مطابق وہاں پہنچے جو دراصل قبل از وقت تھا۔ اجمل نیازی کے قافلے میں، میں اور حامد ولید شامل تھے شادی کے عین موقع پر وہاں پہنچے اور یہ روداد سننے سے محروم رہے جو امتیاز تارڑ اور غلام نبی بھٹ نے سنائی ۔
قرض کی حسرت لے کر سود خور کے در پر آنے والے دوستوں نے آخری فقرے کو زیادہ اہمیت دی اور وہاں سے اٹھ آئے۔ خراد کی ورکشاپ کے مالک کو سود پر قرض کے سوا کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا ۔سوچا اگلے دن پھر اسی آستاں پر چلا آئے گا۔ اس کے ساتھی نے کہا کہ آﺅ تمہیں ایک اللہ کے نیک بندے سے ملاﺅں، شاید کوئی راستہ نکل آئے۔ اب دونوں ایک بڑی کوٹھی کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ بیل دی، گیٹ ملازم نے کھولا اور بغیر کچھ پوچھے دونوں کو ڈرائنگ روم میں لا کر بٹھا دیا۔ چند لمحوں میں صاحب خانہ تشریف لے آئے۔ حالات کے ستائے ہوئے شخص نے ان کو پیر سمجھتے ہوئے عرض کی کہ کاروبار میں گھاٹے پر گھاٹا پڑ رہا ہے۔ ۔۔بابا جی نے ہاتھ کے اشارے سے مزید بات کرنے سے منع کیا۔ اس دوران دو تین مزید مرید قسم کے لوگ بھی وہاں چلے آئے۔ ملازم نے سب کو ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس دوران ایک جھٹکے میں بجلی بند ہوئی دوسرے میں جنریٹر چلا اور ڈرائنگ روم پہلے کی طرح پھر جگمگا اٹھا۔ فریادی کہتا ہے اس موقع پر اسے یہ شعر بے طرح سے یاد آیا ....
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اس کے خیالات کا تانتا بزرگ کے ان الفاظ سے ٹوٹا ”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ مدد کرے گا۔ یہ عہد کرو کہ جھوٹ نہیں بولو گے اور کبھی سود پر قرض نہیں لو گے“ اس نے صدق دل سے عہد کیا۔ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ اگلے روز ورکشاپ جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ یہی روٹی روزی کا اڈا تھا جو اب ویران ہو کر کھانے کو دوڑتا تھا۔ بڑے حوصلے سے گھر سے نکلا ہی تھاکہ موبائل پر دس لاکھ کا آرڈر مل گیا۔ پارٹی نے دو لاکھ ایڈوانس لے جانے کو کہا یوں وہ دو لاکھ وصول کرکے ورکشاپ گیا اور شام کو اسی دوست کو ساتھ لے کر پیر صاحب کے دولت خانے پر مٹھائی اور 5 ہزارکے ساتھ حاضر ہوا اور نذرانہ پیش کرتے ہوئے ماجرا سنایا ۔ پیر صاحب نے فرمایا تمہیں تو خود پیسوں کی ضرورت ہے،ایہیں اپنے پاس رکھو۔ مٹھائی اپنے بچوں، عزیزوں اور دوستوں کو جا کر کھلاﺅ۔۔ پیر صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ 25 مربعے کے مالک بڑے زمیندار ہیں۔ نذر نیاز قبول نہیں کرتے۔ لوگوں کو سچائی کا درس دیتے ہیں ۔یہی ان کا مشن ہے۔
آج پیری مریدی ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اصل اور نقل میں پہچان نہیں رہی۔ اب تو پیر صاحبان ٹی وی پر آ کر بھی اپنی رونمائی کرتے ہیں۔ کالموں میں تذکرے ہوتے ہیں۔ہم پھونکیں مارنے والوں اور کرامات دکھانے کے دعویداروں ہی کو پیر سمجھتے ہیں۔پیر وہ بھی ہے جو راہِ راست دکھا دے ،لوگوں کو گمراہی کی تاریکی سے نکال دے اور کامیاب زندگی کا گُر بتا دے ۔ پیر کی تلاش میں کئی لوگ عموماً ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
ایک پیر کی روداد ایک بڑے صحافی نے سرمحفل سنائی۔ ”عمران خان لفٹر سے گرے تو ان کی ریڑھ کی ہڈی کے اپریشن کے لئے ڈاکٹروں کی متضاد رائے تھی۔ کچھ ڈاکٹروں کا اپریشن کرنے پر اصرار تھا۔ عمران خان کو اس تذبذب سے ایک فون کال نے نکالا ”اپریشن نہ کرانا“ فون کرنے والے کا آدمی بھی تھوڑی دیر بعد پہنچ گیا جس نے دوا پہنچائی شاید کوئی ورد بھی بتایا ۔ ڈاکٹر اور میڈیکل سائنس عمران خان کے ٹیسٹوں کے بعد کہتی تھی عمران کو نارمل زندگی کی طرف آنے میں دوتین سال لگیں گے۔ عمران خان تو چار پانچ ہفتے بعد ہی کمر پر بیلٹ باندھ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ مزید علاج کے لئے لندن گئے۔ ڈاکٹروں نے وہاں چیک اپ کیا ٹیسٹ لئے اور ہسٹری دیکھی۔ عمران خان کے اپنے ہسپتال کے ٹیسٹوں نے مہروں میں جو نشاندہی کی تھی لندن کے ٹیسٹوں میں اس کا نام و نشان نہیں تھا۔ لندن میں ڈاکٹروں نے اپنے ٹیسٹوں کی بنیاد پر کہا کہ پاکستان سے آئی رپورٹوں میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہوتا تو عمران کو عام زندگی کی طرف لوٹنے میں طویل عرصہ چاہیے تھا۔ ہمارے ٹیسٹوں کے مطابق ایسا کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیلٹ کو غیر ضروری قرار دے کر اسے اتروا دیا“
عمران کا پیر جہلم میں رہتا ہے نام اور پتہ کیا ہے شاید مجیب الرحمن شامی صاحب بتا سکیں۔ یہ روداد انہوں نے گوجرانوالہ میں فاروق عالم انصاری کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر لاہور سے جانے والے صحافیوں کو سنائی جو میزبان کے بتائے ہوئے وقت کے مطابق وہاں پہنچے جو دراصل قبل از وقت تھا۔ اجمل نیازی کے قافلے میں، میں اور حامد ولید شامل تھے شادی کے عین موقع پر وہاں پہنچے اور یہ روداد سننے سے محروم رہے جو امتیاز تارڑ اور غلام نبی بھٹ نے سنائی ۔
No comments:
Post a Comment