About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, September 10, 2013

لارڈ نذیر، شہباز اور پُل

 لارڈ نذیر، شہباز اور پُل لارڈ نذیر، شہباز اور پُل

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
10 ستمبر 20131
Print  
لارڈ نذیر، شہباز اور پُل
”صداقت کی گونج“ سے ذہن میں پہلا اور فوری دھماکہ یہی ہوتا ہے کہ یہ کسی فلم، ڈرامے یا” موسمی جریدے“ کا نام ہے۔ جس ”صداقت کی گونج “ کا زیر نظر کالم میں ذکر ہے وہ لارڈ نذیر احمد کے خطبات، خطابات اور انٹرویوز کا مجموعہ ہے جن کو عمران چودھری نے ترتیب دیا۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی میں عمران چودھری نے دعوت دی ‘تاکید بلکہ زوردار تاکید نواز کھرل نے کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی شہباز شریف اور صدر مجلس لارڈ نذیر احمد تھے۔ اتوار کی شام یہ مجلس پانچ سے آٹھ بجے تک سجی رہی۔ شہباز شریف تشریف لائے جن کے پاس ایسی تقاریب میں شرکت کا عموماً وقت نہیں ہوتا، وہ لارڈ نذیر کی محبت میں چلے آئے ۔ لاہوریوں کو چاہئے کہ ایسے مواقع پر شہباز کو ڈسٹرب نہ کیا کریں۔ نواز شریف کے پاس بہت وقت ہے۔ ہفتہ اتوار وہ لاہور میں ہوتے ہیں۔ کوئی ناگزیر سرکاری مصروفیت نکل آئے تو اسلام ا ٓباد نہیں جاتے ،جاتی عمرہ کو اسلام آباد بنا لیتے ہیں۔ اے پی سی کی تیاری کے حوالے سے ہفتہ 7 ستمبر کو فوج ،ایجنسیوں اور کئی وزارتوں کے سربراہان جاتی عمرہ میں بلائے گئے تھے ۔ بہرحال شہباز شریف نے ”صداقت کی گونج“کیلئے سوا گھنٹے کا اچھا یا برا وقت نکال لیا۔ تقریب میں بہت کچھ ہوا لیکن کتاب کی رونمائی کا تکلف دیکھنے میں نہیں آیا۔
”صداقت کی گونج“کی قیمت کیا ہے‘ صفحے کتنے ہیں، اس کا علم کتاب دیکھنے پر ہو گا۔ ایک موقع پر نواز کھرل سے کہا کہ کتاب دکھا تو دیں انہوں نے کہا ”ہن ای دینا“ (ابھی دیتا ہوں) تقریب کے اختتام تک انکی ”ہن ای“ نہ آئی۔تقریب کے نقیب کھرل صاحب نے ساتھ آٹھ مقررین کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی تو ہال میں ایک بھگدڑ کی سی کیفیت کا منظر تھا۔ حاضرین کرسیوں سے زیادہ تھے۔ مقررین گرامی سٹیج کی طرف بڑھے تو خود کو بڑا سمجھنے والے انکی خالی کردہ کرسیوں کی طرف لپکے‘ جہاں کرسی میں ایک خاص کشش نظر آئی۔ پروٹوکول کی دلکشی بھی قابل دید تھی۔ شہباز شریف ہال میں داخل ہوئے تو ان کے محافظ اور پروٹوکول کیساتھ ساتھ کئی ”جماں جنج نال“ بھی تھے۔ شہباز کو بھی تقریریں سننے کے کشٹ سے گزرنا پڑا۔ انکے آگے اور دائیں بائیں تو حفاظتی عملہ تھا‘ پیچھے پی اے اور پی ایس قسم کے جانباز کرسیوں پر براجمان تھے۔ شہباز نے تین چار بار پیچھے دیکھے بغیر ہاتھ سے اشارہ کیا تو بیک وقت چار افسر جھپٹنے کے انداز میں اٹھتے جو زیادہ پھرتی دکھاتا وہ اپنا کان مہمان خصوصی کے قریب کر دیتا۔
 صوفیہ بیدار، اسلم گھمن، مجاہد کامران، راجہ انور، حامد سعید کاظمی، عمران چودھری، مجیب الرحمن شامی اور صدر مجلس و مہمان خصوصی نے خطاب کیا۔ نستعلیق سے لیکر دھکا سٹارٹ اور دھپہ مار اردو سننے کو ملی۔ اکثر خطباءنے شہباز شریف کے کارناموں کو مزید اجاگر کیا۔ میٹرو کو سراہا گیا۔ انڈر پاسز اور پلوں کی تعمیر پر لہجے دھمالیں ڈال رہے تھے حالانکہ تقریب لارڈ نذیر کے اعزاز میں تھی۔ ایک کے سوا سارے مقررین پل باندھتے نظر آئے۔
حامد سعید کاظمی جو برطانیہ میں لارڈ نذیر کی مہمانداری انجوائے کر چکے ہیں نے فرمایا کہ اگر عمران چودھری نے ہوتے تو ہم لارڈ نذیر کے کارناموں، کردار اور اوصاف حمیدہ سے محروم رہتے۔ شامی صاحب نے اپنی باری پر گرہ لگائی کہ سید یوسف رضا گیلانی نہ ہوتے تو ہم حامد سعید کاظمی کی خدمات سے محروم رہتے اور حضرت سید آصف علی زرداری نہ ہوتے تو سید یوسف رضا گیلانی کے جوہر کھل کر سامنے نہ آتے۔ شامی صاحب نے لارڈ نذیر کی پاکستان ، اسلام اور انسانیت کیلئے خدمات کابڑی خوبصورتی سے تذکرہ کیا۔اسکے بعد چراغ سے چراغ روشن ہوتا چلا گیا پہلے ”پل کی تعمیر “پر شہباز شریف نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا ”کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑے ہیں“ تو شامی صاحب نے فرمایا نوکری پکی کر رہا ہوں۔ کسی نے آواز لگائی۔” اپنی بھی“ ۔
شہباز شریف نے اپنی تقریر میں قوم کو صابر اور سخت جان کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے بڑی جوانمردی سے انتہائی کرپشن، بیڈ گوورننس اور بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کیا۔ خدا خیر کرے، حکمرانوں غلط فہمی یا خوش فہمی میں قوم کا مزید صبر آزمانے کی پلاننگ تو نہیں کر رہے ۔ لارڈ نذیر کی باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ میں ان سے میاں عامر کے گیسٹ ہاﺅس میں کوئی چھ سات سال قبل ملا تھا۔ اب وہ قدرے سمارٹ ہیں۔وہ وہیں قیام پزیر تھے ۔ میاں عامر نے تقریر تو نہیں کی البتہ سٹیج پر موجود تھے۔ لارڈ صاحب نے ان سے معذرت کی کہ وہ کتاب میں دیگر میاں صاحبان کے ساتھ انکی تصویر لگانا بھول گئے یہ کسر آئندہ نکال دیں گے۔انہوں نے کان میں کہنے والی بات بھری بزم میں کہہ دی۔
 لارڈ نذیر نے بتایا کہ انکے نانا نمبر دار تھے ان کو لارڈ بنایا گیا تو اسکے بڑے چرچے ہوئے۔ میرے کزن نے میری والدہ سے پوچھا کہ نذیر کیا بن گیا ہے جو اس قدر مشہوری ہو رہی ہے؟ تو والدہ نے کہا کہ میرا خیال ہے وہ تحصیلدار لگ گیا ہے۔ اخبارات میں خبر آئی کہ Queen appointed a pakistani as peer. ایک مسجد کے خطیب نے اس پر شدید اعتراض کیا کہ ملکہ کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی کو پیر نامزد کرے ۔ ( پیئر peer کا مطلب ڈیوک ، نواب،لارڈ وغیرہ بھی لیاجاتا ہے )
نواز کھرل نے شہباز شریف کے خطاب کے اختتام پرحاضرین سے کہا کہ اب آپ تناول ماحضر فرمائیں۔ لوگ اٹھے، لپکے اور پلیٹوں پر جھپٹے تو بتایا گیا کہ ابھی کھانا نہیں لگا۔ یہ کارخیر آدھ پون گھنٹے کی تاخیر سے انجام پایا۔ مقررین کو پانچ چھ منٹ اور پھر چار پانچ منٹ تک وقت کی کمی کا کہہ کر محدود کیا گیا تھا لیکن جہاں تو ہر فرد وقت کے حوالے سے خود کفیل لگ رہا تھااور وقت گزاری کیلئے مصروفیت درکار تھی۔ اسکے دوران محسن گورایہ، خواجہ نصیر، اختر شمار، سعداللہ شاہ، مبین رشید اور محمد مصدق سے علیک سلیک اور گپ شپ ہوئی۔

No comments:

Post a Comment