لاہور سے گولڑہ
’’آپ کی ٹکٹیں کنفرم ہو گئی ہیں۔ چند لمحوں میں انکے نمبر میسج کر دیتا ہوں‘‘ لاہور میں گولڑہ شریف کے پیروں کے نمائندے نے فون پر اطلاع دی۔ ’’ڈیوو پہ جانا ہو گا؟‘‘۔۔۔ ’’نہیں نہیں جہاز پہ بکنگ کرائی ہے۔‘‘ اس مکالمے پر اطمینان کے ساتھ مسرت بھی ہوئی لیکن اس مسرت کی عمر چند ثانئے سے زیادہ ثابت نہ سوسکی ۔ علامہ نے یہ بتا کر شادمانی بے اطمینانی میں بدل دی کہ بکنگ پی آئی اے میں ہوئی ہے۔ پی آئی اے کی پروازوں کا بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کی طرح کوئی شیڈول نہیں۔ کوئی جہاز اڑنے سے پہلے اور کوئی دوران پرواز بگڑ جاتا ہے۔ کسی کو موسم کی خرابی منزل سے بے منزل کر دیتی ہے تو کسی سے پرندہ ٹکرا جا تا ہے۔ حالانکہ رن وے کے اردگرد سرکاری شکاری پھرتے نظر آتے ہیں ان کو شاید ’’سٹن گنیں‘‘ دے رکھی ہیں۔ میسج Boxدیکھاتو پی آئی اے کا گولڑوی صاحب کے ٹکٹوں کے پی این نمبر سے پہلے پیغام موجود تھا۔ ساتھ ہی فون بھی آ گیا کہ رات ساڑھے آٹھ بجے کی پرواز ہے جو دو گھنٹے لیٹ ہے۔ پی آئی اے میں سفر مہم جوئی سے کم نہیں اور مہم جو وہی ہو سکتا ہے جسے ’’موت کا ایک دن مقرر ہے‘‘ پر یقین کامل ہو۔ فرنٹیئر پوسٹ کے چیف ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی کے دو بچے سفر کر رہے تھے کہ ان کی سیٹ جہاز سے الگ ہو کر گر گئی۔ دونوں کو خراش تک نہ آئی۔ یہ واقعہ ان کے تیسرے بھائی جلیل آفریدی نے سنایا ۔ پی آئی اے اس واقعہ کو سنہری حروف میں ائرپورٹس پر جگہ جگہ کندہ کرا دے تاکہ مسافر کبیدہ خاطر نہ ہوں۔
دس بجے ائرپورٹ پہنچے تو حافظ شفیق الرحمن لائونج میں محوِ مطالعہ تھے۔ وہ دو کتابیں ساتھ لائے ۔ایک جہاز میں بھول آئے ،دوسری کے مطالعہ کا وقت نہ ملا۔ حافظ صاحب کے بارے میں جیسا اہل علم اور اہل قلم ہونے کے بارے میں سنا تھا وہ ویسے ہی نظر آئے۔ جاتے اور آتے ہوئے جہاز کی آدھی سیٹیں خالی تھیں۔ ویسے لاہور سے اسلام آباد اور ملتان تک پروازوں کے تکلف کی ضرورت نہیں۔ جہاز کے اے سی کی ٹھنڈک جون کی کڑکتی گرمی میں مہران کے اے سی کی ٹھنڈک سے زیادہ نہیں تھی۔ لوڈشیڈنگ کے مارے ہوئوں کیلئے یہ بھی غنیمت رہی۔ البتہ پی آئی اے کے مسافر خانے اور گاڑیاں یخ بستہ تھیں۔ پرواز کے بیس منٹ بعد ریفریشمنٹ دی گئی۔ سینڈوچ اور شامی کباب موسم میں حدت کے باوجود ٹھنڈے تھے۔ شاید عملہ نے ان کو اوون میں رکھنے کی بجائے فریج میں رکھ دیا تھا۔ واپسی میں ہمیں کچھ تاخیر ہورہی تھی کہ حلقہ 19اٹک جنڈ سے ایم پی اے کے بھائی ملک ابرار نے ہمیں برق رفتاری سے ایئر پورٹ پہنچایا مگر اتوار 25 اگست کو واپسی کی ان ٹائم پرواز بھی آدھ گھنٹہ لیٹ تھی۔ا س میںمسافر اتنے تھے کہ ہر مسافر پی آئی اے کو کرائے سے چار پانچ ہزار زائد میں پڑا ہو گا۔ اس سے پی آئی اے کے خسارے کی سمجھ آ جاتی ہے۔ خدا قومی ائرلائن کو ترقی کی معراج پر پہنچائے۔ اس کے لئے دعا سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے اور اس سے بھی پہلے مرض کی تشخیص کے لئے ماہر ڈاکٹر کی۔ پی آئی اے سمیت ہر ادارہ ڈاکٹر اور ڈاکو میں تمیز ختم کے باعث زوال کی پستیوں میں گرتا چلا جا رہا ہے۔
نزاکت حسین گولڑوی نے ہمیں اسلام آباد ائرپورٹ سے لیا اور پیر مہر علی شاہ صاحب کے آستانہ عالیہ تک پہنچا دیا۔ اگلے روز خاتم النبین کانفرنس تھی۔ یہ 25 اگست 1900 کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو اس مناظرے کی یاد میں منعقدہوتی ہے جس کا چیلنج مرزا غلام احمد نے پیر مہر علی شاہ صاحب کو دیا تھا۔ پیر صاحب نے اسے قبول کیا لیکن مرزا نے راہِ فرار اختیار کر لی۔ گولڑہ شریف کے پیروں کی طرف سے قادیانیوں کو آج بھی مباہلے کی پیشکش موجود ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مباہلے کا چیلنج دیا جسے احمدیوں نے قبول تو کیا لیکن میدان میں نہیں آئے۔ مولانا اکرم اعوان،علامہ خادم حسین رضوی، رضاء الدین صدیقی، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، راغب نعیمی، ضیاء الحق نقشبندی اور دیگر علمائے کرام بھی قادیانیوں کے ساتھ ہمہ وقت مباہلے اور مناظرے کے لئے تیار ہیں۔
آستانہ عالیہ پرخاتم النبین کانفرنس ظہر سے مغرب تک جاری رہی جس میں مسلمانوں کے ہر مسلک کے عوام اور علمائے کرام شریک تھے۔ اس روح پرور مجلس کی صدارت سجادہ نشین پیر سیدشاہ عبدالحق گیلانی صاحب نے کی۔ پیر مہر علی شاہؒ کی بیٹھک یا گدی پرشاہ عبدالحق صاحب بیٹھتے ہیں تاہم پیرانہ سالی کے باعث انتظامی امور ان کے صاحبزادے سیدغلام معین الحق گیلانی صاحب کے ذمے ہیں۔
پیر صاحب نے اپنی اولاد کو لانگری بننے کی نصیحت کی جس پر عمل جاری ہے۔ خاندان نے بھی مجاور بننے کی بجائے مصلح بن کے دکھا دیا۔ لنگر کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ اس پر ماہانہ کروڑوں کے اخراجات آتے ہیں۔ مزار پر صبح گیارہ بجے قوالی لازم ہے۔ قوال مستقل رکھے گئے ہیں جن کو گھر اور گاڑیاں دی گئی ہیں۔ پیر صاحب کے گھرانے کے ہر فرد کا 8 نو کنال پر مشتمل ڈیرہ اور اتنے ہی رقبے پر محیط گھر ہے۔ ان کو ہمہ وقت ڈیروں پر موجود رہنے کا حکم ہے۔ گھر صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کے لئے جانے کی اجازت ہے۔ ڈیرہ پر بھی مہمانداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ سب مزار کی آمدنی سے نہیں پیر صاحب کے خانوادے کے ذاتی کاروبار سے چلتا ہے۔ ان کے بزنس میں شادی ہالوں اور فور و فائیو سٹار ہوٹلوں کا سلسلہ سرفہرست ہے۔ اسلام آباد کی زمینوں کے عوض ملنے والی مختلف اضلاع میں زرعی اراضی اور زرعی فارم گندم اور دیگر فصلوں کی آمدن سے لنگر خانے کو چلایا جاتا ہے۔
7 ستمبر کو پوری دنیا میں یومِ ختم نبوت منایا جاتا ہے۔ اس روز پاکستان کی پارلیمنٹ نے احمدیوں کو اقلیت قرار دیا تھا۔بھٹو کی قومی اسمبلی میں ایک طویل بحث کے بعد پارلیمنٹ اس فیصلے پر پہنچی تھی ۔اس میں احمدیوں کو بھی صفائی پوارکا موقع دیا گیا تھا۔ ان کے بھرپور دلائل کا توڑ بھی مولانا شاہ احمد نورانی اور دیگر علمائے کرام نے پیر مہر علی شاہ صاحب کی کتب خصوصی طور پر سیف چشتیائی، شمس الہدایہ سے کیا گیا تھا۔مولانا محمد اکرم اعوان نے ’’مقدمہ بہاولپور‘‘ تصنیف میں احمدپور شرقیہ کے اس کیس کا حوالہ دیا ہے جس میں ایک خاتون کا خاوند مرزائی ہوا تو اس نے فسخ نکاح کا دعویٰ کردیا۔ 24 جولائی 1926ء کو دائر ہونیوالے مقدمے کا فیصلہ 7 فروری 1935ء کو خاتون کے حق میں ہوا‘گویا ریاست بہاولپور میں احمدیوں کو 1936ء میں اقلیت قرار دیدیا گیا تھا۔
دس بجے ائرپورٹ پہنچے تو حافظ شفیق الرحمن لائونج میں محوِ مطالعہ تھے۔ وہ دو کتابیں ساتھ لائے ۔ایک جہاز میں بھول آئے ،دوسری کے مطالعہ کا وقت نہ ملا۔ حافظ صاحب کے بارے میں جیسا اہل علم اور اہل قلم ہونے کے بارے میں سنا تھا وہ ویسے ہی نظر آئے۔ جاتے اور آتے ہوئے جہاز کی آدھی سیٹیں خالی تھیں۔ ویسے لاہور سے اسلام آباد اور ملتان تک پروازوں کے تکلف کی ضرورت نہیں۔ جہاز کے اے سی کی ٹھنڈک جون کی کڑکتی گرمی میں مہران کے اے سی کی ٹھنڈک سے زیادہ نہیں تھی۔ لوڈشیڈنگ کے مارے ہوئوں کیلئے یہ بھی غنیمت رہی۔ البتہ پی آئی اے کے مسافر خانے اور گاڑیاں یخ بستہ تھیں۔ پرواز کے بیس منٹ بعد ریفریشمنٹ دی گئی۔ سینڈوچ اور شامی کباب موسم میں حدت کے باوجود ٹھنڈے تھے۔ شاید عملہ نے ان کو اوون میں رکھنے کی بجائے فریج میں رکھ دیا تھا۔ واپسی میں ہمیں کچھ تاخیر ہورہی تھی کہ حلقہ 19اٹک جنڈ سے ایم پی اے کے بھائی ملک ابرار نے ہمیں برق رفتاری سے ایئر پورٹ پہنچایا مگر اتوار 25 اگست کو واپسی کی ان ٹائم پرواز بھی آدھ گھنٹہ لیٹ تھی۔ا س میںمسافر اتنے تھے کہ ہر مسافر پی آئی اے کو کرائے سے چار پانچ ہزار زائد میں پڑا ہو گا۔ اس سے پی آئی اے کے خسارے کی سمجھ آ جاتی ہے۔ خدا قومی ائرلائن کو ترقی کی معراج پر پہنچائے۔ اس کے لئے دعا سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے اور اس سے بھی پہلے مرض کی تشخیص کے لئے ماہر ڈاکٹر کی۔ پی آئی اے سمیت ہر ادارہ ڈاکٹر اور ڈاکو میں تمیز ختم کے باعث زوال کی پستیوں میں گرتا چلا جا رہا ہے۔
نزاکت حسین گولڑوی نے ہمیں اسلام آباد ائرپورٹ سے لیا اور پیر مہر علی شاہ صاحب کے آستانہ عالیہ تک پہنچا دیا۔ اگلے روز خاتم النبین کانفرنس تھی۔ یہ 25 اگست 1900 کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو اس مناظرے کی یاد میں منعقدہوتی ہے جس کا چیلنج مرزا غلام احمد نے پیر مہر علی شاہ صاحب کو دیا تھا۔ پیر صاحب نے اسے قبول کیا لیکن مرزا نے راہِ فرار اختیار کر لی۔ گولڑہ شریف کے پیروں کی طرف سے قادیانیوں کو آج بھی مباہلے کی پیشکش موجود ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مباہلے کا چیلنج دیا جسے احمدیوں نے قبول تو کیا لیکن میدان میں نہیں آئے۔ مولانا اکرم اعوان،علامہ خادم حسین رضوی، رضاء الدین صدیقی، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، راغب نعیمی، ضیاء الحق نقشبندی اور دیگر علمائے کرام بھی قادیانیوں کے ساتھ ہمہ وقت مباہلے اور مناظرے کے لئے تیار ہیں۔
آستانہ عالیہ پرخاتم النبین کانفرنس ظہر سے مغرب تک جاری رہی جس میں مسلمانوں کے ہر مسلک کے عوام اور علمائے کرام شریک تھے۔ اس روح پرور مجلس کی صدارت سجادہ نشین پیر سیدشاہ عبدالحق گیلانی صاحب نے کی۔ پیر مہر علی شاہؒ کی بیٹھک یا گدی پرشاہ عبدالحق صاحب بیٹھتے ہیں تاہم پیرانہ سالی کے باعث انتظامی امور ان کے صاحبزادے سیدغلام معین الحق گیلانی صاحب کے ذمے ہیں۔
پیر صاحب نے اپنی اولاد کو لانگری بننے کی نصیحت کی جس پر عمل جاری ہے۔ خاندان نے بھی مجاور بننے کی بجائے مصلح بن کے دکھا دیا۔ لنگر کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ اس پر ماہانہ کروڑوں کے اخراجات آتے ہیں۔ مزار پر صبح گیارہ بجے قوالی لازم ہے۔ قوال مستقل رکھے گئے ہیں جن کو گھر اور گاڑیاں دی گئی ہیں۔ پیر صاحب کے گھرانے کے ہر فرد کا 8 نو کنال پر مشتمل ڈیرہ اور اتنے ہی رقبے پر محیط گھر ہے۔ ان کو ہمہ وقت ڈیروں پر موجود رہنے کا حکم ہے۔ گھر صرف ڈیڑھ دو گھنٹے کے لئے جانے کی اجازت ہے۔ ڈیرہ پر بھی مہمانداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ سب مزار کی آمدنی سے نہیں پیر صاحب کے خانوادے کے ذاتی کاروبار سے چلتا ہے۔ ان کے بزنس میں شادی ہالوں اور فور و فائیو سٹار ہوٹلوں کا سلسلہ سرفہرست ہے۔ اسلام آباد کی زمینوں کے عوض ملنے والی مختلف اضلاع میں زرعی اراضی اور زرعی فارم گندم اور دیگر فصلوں کی آمدن سے لنگر خانے کو چلایا جاتا ہے۔
7 ستمبر کو پوری دنیا میں یومِ ختم نبوت منایا جاتا ہے۔ اس روز پاکستان کی پارلیمنٹ نے احمدیوں کو اقلیت قرار دیا تھا۔بھٹو کی قومی اسمبلی میں ایک طویل بحث کے بعد پارلیمنٹ اس فیصلے پر پہنچی تھی ۔اس میں احمدیوں کو بھی صفائی پوارکا موقع دیا گیا تھا۔ ان کے بھرپور دلائل کا توڑ بھی مولانا شاہ احمد نورانی اور دیگر علمائے کرام نے پیر مہر علی شاہ صاحب کی کتب خصوصی طور پر سیف چشتیائی، شمس الہدایہ سے کیا گیا تھا۔مولانا محمد اکرم اعوان نے ’’مقدمہ بہاولپور‘‘ تصنیف میں احمدپور شرقیہ کے اس کیس کا حوالہ دیا ہے جس میں ایک خاتون کا خاوند مرزائی ہوا تو اس نے فسخ نکاح کا دعویٰ کردیا۔ 24 جولائی 1926ء کو دائر ہونیوالے مقدمے کا فیصلہ 7 فروری 1935ء کو خاتون کے حق میں ہوا‘گویا ریاست بہاولپور میں احمدیوں کو 1936ء میں اقلیت قرار دیدیا گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment