پناہ گزین، تعلیم اور تہذیب
مہاجرین کا 20جون کوعالمی دن بھی منایاجاتا ہے ۔ آج دنیا کے بڑے مسائل میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کا مسئلہ سر فہرست ہے ۔ ان کی تعداد میں کمی کے بجائے مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ چند ماہ میں مصر اور شام سے بے گھر ہونے والوں کی تعداد نصف کروڑ کے قریب جا پہنچی ہے ۔ اس ہاٹ اشو بحث و مباحثہ کے لئے اگلے سال جون تک کے انتظار کے بجائے عصرِ حاضر کے تقاضے کے مطابق حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیاگیا۔ نظامت کے فرائض ابصار عبدالعلی نے ادا کئے۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے مجید نظامی صاحب کی ان کو پاکستان لاشنے کی کوششوں کو سراہا۔ سیمینار سے اوریا مقبول جان‘ گورنمنٹ کالج ٹاو¿ن شپ کے پرنسپل ڈاکٹر محمد عارف نے خطاب کیا۔مجھے بھی نوائے وقت کے ممبر ایڈیٹوریل کی حیثیت سے تجزیہ کے لئے بلایا گیا تھا۔ حاضرین میں سید شعیب الدین ،منور بٹ،پروفیسر مظہر عالم ،عزیز ظفر آزاد، نیئر صدف اور دیگر کے علاوہ گورنمنٹ ٹاو¿ن شپ کالج کے طلبا ءطالبات بھی شامل تھے ۔ اس کالج کا معیار واقعی اعلیٰ اور بلندوبالاہے ۔میرے بیٹے طاہرفضل حسین اعوان نے اسی کالج سے ایف ایس سی کے بعد دوماہ قبل پنجاب یونیورسٹی سے بی سی ایس میں ڈگری مکمل کی۔ فائنل سمسٹر کے پیپر ہورہے تھے کہ اس کی ڈیمانڈ کی سیلری پر جاب مل گئی۔
اقوام متحدہ کی 1951ءمیں وضع کی جانے والی تعریف کی رو سے پناہ گزیں ایسا شخص ہے جو نسل، مذہب، قومیت، کسی معاشرتی گروہ میں شمولیت، سیاسی رائے، جس وجہ کے باعث اذیت پہنچائے جانے کے حقیقی خوف سے اپنے ملک سے باہر ہو اور اسی خوف کے باعث اس ملک کی حفاظت حاصل کرنے سے قاصر ہو یا نہ حاصل کرنا چاہتا ہو۔
لیاقت بلوچ نے موضوع کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا میں ساڑھے چار کروڑ افراد مہاجرین اپنے گھروں سے بے گھر ہیں۔ فلسطین کے 40 لاکھ شامل کرکے یہ تعداد 5 کروڑ ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں روس کے افغانستان پر حملے کے وقت سے افغان مہاجرین موجود ہیں۔ امریکہ اور نیٹو فورسز کے 2014ءمیں افغانستان سے انخلاءکے بعد جو ممکنہ خانہ جنگی ہوگی‘ اس کی وجہ سے مہاجرین کا نیا ریلا آئے گا۔ لیاقت بلوچ نے بہاریوں کو پاکستان لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نوائے وقت کو خراجِ تحسین پیش کیا جس نے ان پاکستانیوں کے لئے باقاعدہ فنڈ قائم کر رکھا ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا کہ مہاجر کے معنی ہی اقوام متحدہ نے بدل دیئے۔ اسلام کے تحت تو یہاں جس ملک کے بھی لوگ آجائیں زمین ان کیلئے اپنی بانہیں وا کر دیتی ہے۔ 2025ءمیں یورپ کی شکل بدل جائے گی۔ وہاں انسان اللہ کے قانون کی نفی کر رہا ہے۔ ایک بزرگ فرد کے مقابلے میں 5 نوجوان ہونے چاہئیں وہاں دو معمر افراد پر صرف 3 نوجوان ہیں۔ دنیا کے حصے بخرے کئے گئے۔ آج یورپ سرحدیں ختم کر رہا ہے۔ جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ایک طرف مکمل افراد دوسری طرف مکمل اسلام ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ دنیا میں دہشت گردی کی جڑیں مہاجرت سے بھی جڑتی ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد سے اسلحہ‘ منشیات کلچر آیا۔ ان افغان مہاجرین میں سے بیشتر اب پاکستانی پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ اب تو امریکی فوجوں کی واپسی پر ہی ان کی واپسی ممکن ہے‘ لیکن اگر یہ واپس نہ گئے تو جو ب±رے اثرات ہمارے معاشرے پر پڑے وہ برقرار رہیں گے۔۔۔
میرے مطالعہ کے مطابق عراق سے لاکھوں افراد امریکی حملے کے بعد گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ممالک چلے گئے ‘کشمیریوں اور فلسطینیوں کی تیسری نسل مہاجروں اور پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہی ہے۔ مصر کے حالات خرا ب ہوئے تو لاکھوں مصریوں کے بھی پڑوسی ممالک میں مہاجر کیمپ آباد ہو گئے۔ شام میں حالات بگڑے تو 20 لاکھ افراد کو جانیں بچانے کے لئے اپنے ملک سے بھاگنا پڑا۔ عالمی مہاجرین کی تعداد پانچ کروڑ کے قریب ہے‘ ان میں سے 90 فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ مہاجر کہیں بھی ہو ستم رسیدہ ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے میانمار کے مسلمان دنیا کے مظلوم ترین لوگ ہیں۔ ان پر بودھ ستم ڈھائے چلے جا رہے ہیں‘ ان کو کوئی ملک قبول کرنے پر تیار نہیں۔ بنگلہ دیش کی طرف بے سروسامانی کے عالم میں قافلے بڑھے تو سکیورٹی فورسز نے ان کوواپس دریا میں پھینک دیا۔ ان حالات میں اقوام کو میانمار کے پڑوسی ممالک پر زور دینا پڑا کہ وہ میانمار سے آنے والوں کو پناہ دیں۔ہم مہاجرین کے مسائل کے حل کی بات کر رہے ہیں۔ اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ کسی بھی شخص کے مہاجر بننے کی نوبت ہی کیوں آتی ہے؟ مہاجر یا پناہ گزین بننے کی وجوہات کا خاتمہ ہو جائے تو دنیا میں کوئی بھی مہاجر نہ ہو۔ کسی طاقتور طبقے کی عدم برداشت کے باعث ہی کسی کے لئے ہجرت کی نوبت آتی ہے۔ عدم برداشت اورتعصب کو عقل ودانش ، دانائی اور مذہب نہیں، جہالت جنم دیتی ہے۔افغانستان‘ عراق‘ فلسطین اور شام کے لوگوں کی غریب الوطنی کے پیچھے، امریکہ‘ روس ، یورپ اور اسرائیل جیسے ممالک کا ہاتھ ہے جو خود کو تہذیب اور تعلیم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز سمجھتے ہیں۔ میانمار میں بودھ مت کے پیروکار و رہنما مسلمانوں پر ستم ڈھا رہے ہیں‘ ان کی تو تعلیم ہی انسانیت کی خدمت ہے‘ پھر بھی انسانیت سوز کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ مادی ترقی انسانیت کی معراج ہے نہ عقل و دانش اور تعلیم کا معیار‘ اصل ضرورت ان ممالک کو تہذیب سکھانے کی ہے جوپائیدار علم سے ہی آتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے اندر کی جہالت اور تعصب دور ہو جائے تو دنیا کے پانچ کروڑ مہاجر اپنے اپنے وطن جاکر آباد ہو سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کو انسانیت کون سکھائے اور تعلیم کون دلائے؟
اقوام متحدہ کی 1951ءمیں وضع کی جانے والی تعریف کی رو سے پناہ گزیں ایسا شخص ہے جو نسل، مذہب، قومیت، کسی معاشرتی گروہ میں شمولیت، سیاسی رائے، جس وجہ کے باعث اذیت پہنچائے جانے کے حقیقی خوف سے اپنے ملک سے باہر ہو اور اسی خوف کے باعث اس ملک کی حفاظت حاصل کرنے سے قاصر ہو یا نہ حاصل کرنا چاہتا ہو۔
لیاقت بلوچ نے موضوع کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا میں ساڑھے چار کروڑ افراد مہاجرین اپنے گھروں سے بے گھر ہیں۔ فلسطین کے 40 لاکھ شامل کرکے یہ تعداد 5 کروڑ ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں روس کے افغانستان پر حملے کے وقت سے افغان مہاجرین موجود ہیں۔ امریکہ اور نیٹو فورسز کے 2014ءمیں افغانستان سے انخلاءکے بعد جو ممکنہ خانہ جنگی ہوگی‘ اس کی وجہ سے مہاجرین کا نیا ریلا آئے گا۔ لیاقت بلوچ نے بہاریوں کو پاکستان لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نوائے وقت کو خراجِ تحسین پیش کیا جس نے ان پاکستانیوں کے لئے باقاعدہ فنڈ قائم کر رکھا ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا کہ مہاجر کے معنی ہی اقوام متحدہ نے بدل دیئے۔ اسلام کے تحت تو یہاں جس ملک کے بھی لوگ آجائیں زمین ان کیلئے اپنی بانہیں وا کر دیتی ہے۔ 2025ءمیں یورپ کی شکل بدل جائے گی۔ وہاں انسان اللہ کے قانون کی نفی کر رہا ہے۔ ایک بزرگ فرد کے مقابلے میں 5 نوجوان ہونے چاہئیں وہاں دو معمر افراد پر صرف 3 نوجوان ہیں۔ دنیا کے حصے بخرے کئے گئے۔ آج یورپ سرحدیں ختم کر رہا ہے۔ جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ایک طرف مکمل افراد دوسری طرف مکمل اسلام ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ دنیا میں دہشت گردی کی جڑیں مہاجرت سے بھی جڑتی ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد سے اسلحہ‘ منشیات کلچر آیا۔ ان افغان مہاجرین میں سے بیشتر اب پاکستانی پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ اب تو امریکی فوجوں کی واپسی پر ہی ان کی واپسی ممکن ہے‘ لیکن اگر یہ واپس نہ گئے تو جو ب±رے اثرات ہمارے معاشرے پر پڑے وہ برقرار رہیں گے۔۔۔
میرے مطالعہ کے مطابق عراق سے لاکھوں افراد امریکی حملے کے بعد گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ممالک چلے گئے ‘کشمیریوں اور فلسطینیوں کی تیسری نسل مہاجروں اور پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہی ہے۔ مصر کے حالات خرا ب ہوئے تو لاکھوں مصریوں کے بھی پڑوسی ممالک میں مہاجر کیمپ آباد ہو گئے۔ شام میں حالات بگڑے تو 20 لاکھ افراد کو جانیں بچانے کے لئے اپنے ملک سے بھاگنا پڑا۔ عالمی مہاجرین کی تعداد پانچ کروڑ کے قریب ہے‘ ان میں سے 90 فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ مہاجر کہیں بھی ہو ستم رسیدہ ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے میانمار کے مسلمان دنیا کے مظلوم ترین لوگ ہیں۔ ان پر بودھ ستم ڈھائے چلے جا رہے ہیں‘ ان کو کوئی ملک قبول کرنے پر تیار نہیں۔ بنگلہ دیش کی طرف بے سروسامانی کے عالم میں قافلے بڑھے تو سکیورٹی فورسز نے ان کوواپس دریا میں پھینک دیا۔ ان حالات میں اقوام کو میانمار کے پڑوسی ممالک پر زور دینا پڑا کہ وہ میانمار سے آنے والوں کو پناہ دیں۔ہم مہاجرین کے مسائل کے حل کی بات کر رہے ہیں۔ اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ کسی بھی شخص کے مہاجر بننے کی نوبت ہی کیوں آتی ہے؟ مہاجر یا پناہ گزین بننے کی وجوہات کا خاتمہ ہو جائے تو دنیا میں کوئی بھی مہاجر نہ ہو۔ کسی طاقتور طبقے کی عدم برداشت کے باعث ہی کسی کے لئے ہجرت کی نوبت آتی ہے۔ عدم برداشت اورتعصب کو عقل ودانش ، دانائی اور مذہب نہیں، جہالت جنم دیتی ہے۔افغانستان‘ عراق‘ فلسطین اور شام کے لوگوں کی غریب الوطنی کے پیچھے، امریکہ‘ روس ، یورپ اور اسرائیل جیسے ممالک کا ہاتھ ہے جو خود کو تہذیب اور تعلیم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز سمجھتے ہیں۔ میانمار میں بودھ مت کے پیروکار و رہنما مسلمانوں پر ستم ڈھا رہے ہیں‘ ان کی تو تعلیم ہی انسانیت کی خدمت ہے‘ پھر بھی انسانیت سوز کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ مادی ترقی انسانیت کی معراج ہے نہ عقل و دانش اور تعلیم کا معیار‘ اصل ضرورت ان ممالک کو تہذیب سکھانے کی ہے جوپائیدار علم سے ہی آتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے اندر کی جہالت اور تعصب دور ہو جائے تو دنیا کے پانچ کروڑ مہاجر اپنے اپنے وطن جاکر آباد ہو سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کو انسانیت کون سکھائے اور تعلیم کون دلائے؟
No comments:
Post a Comment