مہنگائی، بیروزگاری، رشوت ستانی اور لاقانونیت جیسی خرافات کے خاتمے کی جو امیدیں عوام نے حکومت سے وابستہ کی تھیںجلتے خوابوں کی مانند اب ان سے دھواں اُٹھ رہا ہے۔ عوام کے ارمانوں، آرزوﺅں اور تمناﺅں کے تاج محل زمین بوس کوہیں۔ عوام نے مسلم لیگ (ن) کے گلے میں اقتدار کی مالا اسے اپنی حفاظت کی چھت ،چھتری اور سائبان سمجھ کرپہنائی جو عوام کے مقدر کی زنجیر بنا دی گئی۔ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عوامی مسائل کے حل، ملک کی ترقی و خوشحالی کا بڑا نسخہ کیمیا دریافت کر کے عوام پر افشاءکیا اور کامیابیوں و کامرانیوں کا میدان مار لیا۔ کرپٹ بیورو کریسی اور سیاستدانوں کی کرپشن سے بنائی دولت کی پائی پائی وصول کر کے قومی خزانے میں لانے کی قسمیں کھائی گئیں۔ یہ اربوں ڈالر اور کھرب ہا روپیہ اگر خزانے میں واپس آ جائے تو قوم و ملک کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کی ضرورت رہے گی نہ امریکہ عرب ممالک سے بھیک کی۔ اب تک سامنے آنے والی صورتحال کے مطابق تو لگتا ہے کہ گذشتہ ادوار میں لوٹ مار کرنے والوں کو معاف کر دیا گیا تاکہ وہ حکومتی مدت مکمل کرانے میں وہی کردار ادا کریں جو نواز لیگ نے فرینڈلی اپوزیشن بن کر گزشتہ دور میں ادا کیا۔ کرپشن کے پیسے کی واپسی سے جو وسائل مہیا ہونے تھے وہ اب عوام پر ٹیکس لگا کر، ٹیکسوں میں اضافہ کر کے اور بجلی و تیل کی قیمتیں بڑھا پیدا کئے جا رہے ہیں۔ عوام کا تیل نکلے گا تو وہ چیخ و پکار ہی کر سکتے ہیں، سو وہ کر رہے ہیں۔ جن کو پکار رہے ہیں ان کے بم پروف محلات اور بُلٹ پروف گاڑیوں کے اندر تک تو ہَوا داخل نہیں ہو سکتی صدا کیسے پہنچے گی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے پاﺅں مضبوطی سے جما کر فیصلہ کن لائحہ عمل اختیار کرے اور اس کیلئے عوام کو سرِ دست اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا گیا ۔ عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی جاتی تو ممکنہ طور پر شکنجے میں آنے والے جمہوریت کا کھیل بگاڑنے پر ہی تُل جاتے۔ حکومت بہرحال بہت کچھ نہیں تو کچھ نہ کچھ کرتی نظر آرہی ہے ۔
وزیراعظم نواز شریف نے چین، سعودی عرب اور ترکی کے دورے کر لئے، یہی ہمارے بہترین دوست ہیں۔ سب نے پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں کردار ادا کرنے کا یقین دلایا۔ ترقی و خوشحالی کا خواب امن کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا جو ملک سے ناپید ہو چکا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ہر تین ممالک کے حکمرانوں اور وہاں کی تاجر برادری و سرمایہ کاروں کو پاکستان میں انوسٹمنٹ کی دعوت دی۔ یہ ایسے ہی کہ حامد کرزئی کسی ملک سے ریلوے سیلون درآمد کرنے کا معاہدہ کر لیں ۔ آزاد کشمیر حکومت بحری بیڑے کا آرڈر دیدے۔ نہ امن نہ انرجی ،آپ کے سرمایہ کار تو وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک جا رہے ہیں ۔جہاں کون سرمایہ کاری کرے گا؟ --- یہ سوال نہایت اہم ہے ۔مسلم لیگ ن کی کی پوری توجہ اس طرف ہے ۔ نواز لیگ حکومت ملک سے دہشت گردی، لاقانونیت اور بدامنی ختم کرنے کیلئے پُرعزم نظر آ رہی ہے۔ اس میں لغزش و لرزش نہ آئی یہ سیاسی دباﺅ،اندرونی و بیرونی مصلحتوں کا شکار نہ ہوئی تو یقیناً حالات سازگار ہو جائیں گے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ فوج کو طالبان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات پر آمادہ کرنا بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ طالبان کی شرائط سرِ دست بڑی کڑی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ مذاکرات کی میز پر آئے تو درمیانی راستہ ضرور نکلے گا۔ طالبان کے گروپوں کی تعداد 70 کے لگ بھگ ہے ۔سارے کے سارے مذاکرات کی حمایت اور مخالفت میں یکسو نہیں۔ ان میں آدھے بھی مذاکرات کے بعد معاہدے کے بندھن میں بندھ گئے تو باقی کا مقابلہ کرنا آسان ہو گا اور پوری قوم یکجا و یکتا بھی ہو گی۔ خدانخواستہ مذاکرات ناکام ہوئے تو تباہی کا سلسلہ یو نہی جاری رہے گا اورقوم بھی بٹی رہے گی۔ مذاکرات کا دم بھرنے اور کرنے والے ان کو ناکام بنانے کیلئے آگے نہیں بڑھ رہے وہ بہت سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں جن میں غیر محسوس انداز اور غیر اعلانیہ پیشرفت ہورہی ہے ۔
کراچی میں بدامنی اپنے عروج کو چھو کر مُڑی ہے۔ فوجی اپریشن تو نہیں ہُوا ،جو ہُوا بہتر ہُوا۔ پہلی دفعہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جسے مرکزی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ کراچی میں اجلاس کے دوران وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ڈی جی رینجرز سے پوچھا تھا ” کراچی کتنے دن میں امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔“ ان کا جواب تھا۔” اختیارات دئیے جائیں تو تین دن میں۔ “وزیر داخلہ اس پر چونکے ، شاید یقین نہیں آیا اور حیرانی سے پوچھا۔” ذرا پھر سے کہنا۔“ ان کا مصمم ارادے سے جواب تھا۔” تین دن صرف تین دن۔“ اب حکومت رینجرز کو مکمل اختیارات دے رہی ہے تو ان شاءاللہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ کابینہ کے اجلاس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کا مسودہ منظور کیا گیا ہے جس کے مطابق تحقیقاتی ادارے تفتیش کےلئے ملزموں کو 30 کے بجائے 90 روز تک حراست میں رکھ سکیں گے اور یہ حراست کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مسلح افواج، سول فورسز، خفیہ اداروں اور ایس پی عہدے کے پولیس افسر پر مشتمل ہو گی، تحقیقاتی ٹیم ایف آئی آر کے اندراج کے 30 روز کے اندر ٹرائل کورٹ میں مقدمہ پیش کرےگی۔ پیرا ملٹری فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزاحمت کی صورت میں شدت پسندوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں ملوث افراد کو وارننگ دینے کے بعد گولی مارنے کا بھی اختیار حاصل ہو جائے گا۔ دہشت گردی میں ملوث افراد اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے افراد کو بھی گولی مارنے کا اختیار رکھیں گے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت 30 روز میں کیس کا فیصلہ کرےگی ۔
دہشت گرد واقعی انسانیت کے دشمن ہیں اگر حکومت ان کے خاتمے کیلئے جرا¿ت مندانہ اقدام، مصلحتوں اور سیاسی دباﺅ سے بالاتر ہو کر رہی ہے تو کم از کم دہشتگردی کے خاتمے کے لئے یہی درست سمت ہے ۔پوری قوم کو اس کا ساتھ دینا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment